عشق کی دیکھیے روداد وفا ٹھہری ہے
عشق کی دیکھیے روداد وفا ٹھہری ہے
دل کی آواز زمانے کی صدا ٹھہری ہے
آج تک آئنۂ دل میں یقیناً میرے
ہر جفا تیری وفاؤں کی ادا ٹھہری ہے
اب کہاں جائیں گے یہ اہل خرد اہل جنوں
آرزو دل کی تو زنجیر وفا ٹھہری ہے
جانے کس موڑ پہ حاصل ہے سکوں لوگوں کو
جانے کس موڑ پہ یہ تازہ ہوا ٹھہری ہے
آج کے دور میں ہے جرم محبت کرنا
آج کے دور میں الفت بھی خطا ٹھہری ہے
سنتے ہیں شادؔ کہ ویرانے میں دل کے اپنے
غم کی روداد زمانے کی جفا ٹھہری ہے