ہولی

کیا خوب آئی ہولی
مستوں کی نکلی ٹولی
کیا خوش گوار دن ہے
اک پر بہار دن ہے
اڑتا گلال دیکھو
چہرے ہیں لال دیکھو
پچکاریوں کے دھارے
خوش رنگ ہیں نظارے
جذبوں کی وہ خوشی ہے
رنگوں میں جو چھپی ہے
رنگوں سے تر بدن ہے
رنگین پیرہن ہے
سب ناچ گا رہے ہیں
اودھم مچا رہے ہیں
گلیوں میں گھومتے ہیں
مستی میں جھومتے ہیں
سب ٹوٹ کر ہیں ملتے
یوں مل کے سب ہی کھلتے
دوری نہ فاصلہ ہے
ہولی میں سب روا ہے
نیلا ہرا گلابی
رنگ آج اڑاتی بھابی
راہلؔ کشورؔ گوپیؔ
کھلیں گے ہم سے ہولی
گھر میں بنائے سب نے
پکوان میٹھے میٹھے
تہوار ہے نرالا
الفت میں سب کو ڈھالا
ہولی نے آ کے پھر دی
تعلیم ایکتا کی
رت کیا فراغؔ چھائی
گوکل کی یاد آئی