ہم تو ہیں آسماں کے خسارے زمین پر

ہم تو ہیں آسماں کے خسارے زمین پر
بچھڑے ہوئے ہیں اس پہ ہمارے زمین پر


صورت ملی نہ یار ملا خاکیوں کے بیچ
رہتے ہیں ہم گھٹا کے سہارے زمین پر


وہ زلف شام خواب یہ سگریٹ دھواں شراب
باقی بڑے خراب نظارے زمین پر


کس سے کرے گا پیڑ کٹی بانہہ کا گلا
کوئی نہیں ہے جس کو پکارے زمین پر


جل کر بجھے چراغ یہی پوچھتے مرے
کیا ہم ہیں اس زمیں کے ستارے زمین پر