گوگل کا گاما پہلوان کو خراج تحسین

آج گاما پہلوان کے 144 ویں یوم پیدائش پر گوگل سرچ انجن نے ڈوڈل کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس ڈوڈل کوعالمی شہرت یافتہ السٹریٹر ورِندا زاویری نے ڈیزائن کیا۔ گاما پہلوان کو آج بھی بڑے ریسلرز میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔وہ اپنے تمام بین الاقوامی میچوں میں ناقابل شکست رہے اور "دی گریٹ گاما" کا اعزاز حاصل کیا۔

غلام محمد بخش بٹ عرف گاما پہلوان ایک کشمیری تھے۔ وہ 52 سال تک ناقابل شکست رہے۔ وہ 22 مئی 1878ء میں کو بھارتی شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے پانچ ہزار سے زائد کُشتی کے مقابلے کیے لیکن کسی ایک میں بھی شکست کا سامنا نہیں کیا۔ انھوں دس سال کی عمر میں پہلوانی شروع کردی تھی۔ وہ صرف اس عمر میں 500 پُش اپ (اٹھک بیٹھک) کرلیتے تھے۔ 1928 میں گاما انھوں نے پولینڈ کے مشہور ریسلر کو محض 42 سکینڈز میں شکست دے دی۔

گاما پہلوان: رستمِ زماں کیسے بنے؟

1888 میں جب وہ محض دس برس کے تھے، انھوں نے ملک بھر کے 400 سے زیادہ پہلوانوں کے ساتھ ایک رسہ کشی کے مقابلے میں حصہ لیا اور جیت اپنے نام کی۔ اس جیت نے ان کو ہندوستان بھر میں مشہور کردیا۔ اس نے 15 سال کی عمر سے ہی کُشتی کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ 1910 تک وہ قومی ہیرو اور عالمی چیمپئن کے طور پر ہندوستان کے اخبارات کی سرخیوں کی زینت بن چکے تھے۔

گاما نے اپنے کیریئر کے دوران بہت سے ٹائٹل حاصل کیے، خاص طور پر ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن شپ (1910) اور ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ (1927) شامل ہیں۔ جہاں انہیں ٹورنامنٹ کے بعد "ٹائیگر" کے خطاب سے نوازا گیا۔ یہاں تک کہ انہیں برطانوی پرنس آف ویلز نے ہندوستان کے دورے کے دوران عظیم پہلوان کے اعزاز میں چاندی کی گدی بھی پیش کی تھی۔ گاما کی پہلوانی آج کے دور کے پہلوانوں اور ریسلرز کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بروس لی بھی ان کے مداحوں میں شامل ہے۔

گاما پہلوان کے مشہور دنگل

1۔ 1910 تک سوائے رحیم بخش سلطانی والا کے وہ ہندوستان کے تمام مشہور پہلوانوں کو شکست دے چکے تھے۔ 1895 میں جب گاما پہلوان 17 برس کا تھا رستمِ ہند رحیم بخش کو چیلنج دیا لیکن مقابلے میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

2۔ 1910 میں اپنے بھائی امام بخش کے ساتھ انگلستان کے دورے پر گئے۔ وہاں پہلا بین الاقوامی دنگل  مشہور امریکی پہلوان بینجمن رولر عرف "ڈوک" سے ہوا۔ جسے پہلے راؤنڈ میں ایک منٹ اور 20 سیکنڈز میں اور دوسرے راؤنڈ میں 9 منٹ 10 سیکنڈز میں چِت کردیا۔

3۔ اسی برس دوسرا مقابلہ ورلڈ چیمپیئن اسٹینی سیلس زیبسکو سے ہوا۔ جان بُل ریسلنگ چیمپیئن شپ میں ربسکو کو شکست دے کر "جان بُل بیلٹ" حاصل کیا۔ یہ میچ دو گھنٹے اور 35 منٹ جاری رہا۔ اس جیت کے بعد انھیں "رستمِ زماں" یعنی ورلڈ چیمپیئن کا خطاب دیا گیا۔

4۔ انگلستان کے دورے کے دوران دیگر ممالک کے عالمی چیمپیئن کو بھی شکست دے کر ناقابل شسکت رہے۔ ان میں یورپی چیمپیئن جویان لیم، عالمی چیمئین سویڈن کے جیس پیٹرسن اور فرانس کے مورس ڈیریاز شامل ہیں۔

5۔ انگلستان سے واپسی پر الہ آباد میں رحیم بخش سلطانی والا سے دوبارہ دنگل سجا۔ ایک سخت مقابلے بعد گامے پہلون نے رحیم بخش کے چاروں شانے چِت کرکے "رستمِ ہند" کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ ان کا سب سے طاقت ور حریف کون رہا ہے تو انھوں نے جواب میں رحیم بخش سلطانی والا کا نام لیا۔

6۔ رحیم بخش کے بعد ہندوستان کے نامی گرامی پہلوان کو بھی  1916 میں ایک مقابلے میں شکست سے دوچار کیا۔

ہال آف فیم:

ان کے اعزاز میں دنیا کے تین بڑے ہال آف فیم میں ان کا نام شامل کیا جاچکا ہے:

1۔ 2021 میں انٹرنیشنل پروفیشنل ریسلنگ ہال آف فیم

2۔ 2015 میں جارج ٹریگوس تھیسز پروفیشنل ریسلنگ آف فیم

3۔ 2007 میں پروفیشنل ریسلنگ ہال آف فیم اینڈ میوزیم

گاما پہلوان تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرآئے۔ پاکستان میں بھی وفات تک کُشتی اور پہلوانی سے وابستہ رہے۔ ان کا بھتیجا بھولو پہلوان بھی پاکستان کا بیس سال تک قومی چیمپیئن رہا۔ آپ 23 مئی 1960 کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آج بھی دنیا ان کو پہلوانی کا رستمِ زماں کہتی ہے۔

متعلقہ عنوانات