غافل دل اور عشق کی رسمیں

غافل دل اور عشق کی رسمیں
عشق کہاں پھر دل کے بس میں


کہاں گئے پھولوں سے گھروندے
جن کے لیے روتے تھے قفس میں


آہ وہی مطلوب نہ نکلا
جس کی طلب رقصاں تھی نفس میں


امیدوں کی اپنی گھٹن تھی
عمر گزاری ہم نے امس میں


لو کے پیالے کیا چھلکائیں
برف گھلی ہے دھوپ کے رس میں


حسرت بن جاتی ہے تمنا
یوں نہ سما دل کی نس نس میں