ڈرامہ: از خواب گراں خیز

کردار:

  •             دو نریٹر ، بیان کرنے والے

  •             مسلم امہ کے دو علامتی کردار

  •             تین انگریز کردار

  •             ساقی

•             مسخرا

•             قوال

منظر:

پس منظر میں مسلمانوں کے  عروج  کے دور کی کوئی دھن سنائی دے رہی ہے۔ سٹیج پر شاہی لباس پہنے دو کردار  داخل ہوتے ہیں۔ دونوں کردار مسلمانوں کے عروج کی عملی تصویر لگ رہے ہیں۔ پروقار چال، سینہ چوڑا، پر اعتماد  اور چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات۔  دونوں کرداروں کے بائیں ہاتھ میں تلوار اور سیدھے ہاتھ میں کتاب ہے۔    دونوں کردار ایک دفعہ  اکٹھے کتاب لہراتے ہیں اور پھر آپس میں تلواریں ٹکراتے ہیں۔ پھر سٹیج کے درمیان میں آ کر کتاب اور تلوار بلند کرکے اکٹھے اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں  کہ جیسے دونوں میں بہت اتحاد ہے۔   

               سٹیج پر نریٹر داخل ہوتا ہے اور انتہائی  پر اعتماد و پر وقار انداز میں  اقبال کی نظم   ترانہ ملی کے  یہ اشعار بولتا ہے:

چِین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

دنیا کے بُت‌کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری

تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا

               جیسے ہی  نریٹر آخری  مصرعہ بولتا ہے تو دونوں کردار  ہاتھ میں پکڑی کتاب گرا دیتے ہیں۔   نریٹر وہیں رک جاتا ہے۔ پس منظر سے  بادل گرجنے کی آواز آتی ہے۔  سٹیج پر جام پکڑے ساقی داخل ہوتا ہے۔    ساقی آکر دونوں کرداروں کے لبوں سے جام لگاتا ہے۔ پس منظر میں اب دھن بھی بدل کر جام و سبو  کی مناسبت سے ہو چکی ہے۔ دونوں کردار ساقی سے اپنا اپنا جام پکڑ کر جھومنے لگتے ہیں۔      تلوار بھی اب نیچے آ چکی ہے اور کرداروں کے ہاتھوں میں لرز رہی ہے۔ کردار جھومتے جھومتے سٹیج کا چکر لگانے لگتے ہیں۔

               اسی دوران  انگریز کا روپ دھارے ایک اور کردار سٹیج پر داخل ہوتا ہے۔   آہستگی سے آکر مسلمان کرداروں کی گرائی کتاب اٹھا لیتا ہے۔ پھر سٹیج کی ایک طرف  بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگتا ہے۔  مسلمان کردار اس دوران جھومتے رہتے ہیں اور سٹیج کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔  سٹیج پر مسخرے اور قوال داخل ہوتے ہیں اور  دونوں مسلم کرداروں کو محظوظ کرتے ہیں۔ وہ صرف اشارے سے ہی اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ پس منظر سٹیج پر بدلتی صورتحال کے لحاظ سے دھن بدلتی رہتی ہے۔ پھر دونوں کردار مسخرے اور قوال پر پیسے لٹاتے ہیں اور انہیں خوب داد  دیتے ہیں۔ پھر دونوں کرداروں، قوال اور    مسخرے کا ایکشن رک جاتا ہے لیکن وہ سٹیج سے جاتے نہیں۔ سٹیج   پر  کتاب پڑھتا انگریز اٹھتا ہے۔ سٹیج کے آگے آکر وہ ایسا اشارہ کرتا ہے، جیسے کسی کو بلا رہا ہے۔ دو مزید انگریز کا روپ دھارے کردار داخل ہوتے ہیں۔ انگریز انہیں ایسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے، جیسے استاد شاگردوں کو۔ کتاب تھامے انگریز ایسے کھڑا ہو جاتا ہے، جیسے خطاب کرنے لگا ہو۔ نریٹر کی آواز آتی ہے:

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ

مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو ذرا دیکھ

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھُپا دیکھ

ایّامِ جُدائی کے سِتم دیکھ، جفا دیکھ

بے تاب نہ ہو معرکۂ بِیم و رجا دیکھ!

ہیں تیرے تصرّف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں

یہ گُنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں

یہ کوہ یہ صحرا، یہ سمندر یہ ہوائیں

تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینۂ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ!

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے

دیکھیں گے تجھے دُور سے گردُوں کے ستارے

ناپید ترے بحرِ تخیّل کے کنارے

پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

تعمیرِ خودی کر، اَثرِ آہِ رسا دیکھ!

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں

آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں

جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں

جنّت تری پنہاں ہے ترے خُونِ جگر میں

اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ!

               تمام خطاب کے دوران نریٹر کے الفاظ کے اعتبار سے استاد انگریز اشارے کرتا رہتا ہے۔   خطاب ختم ہونے پر انگریز اٹھ کر سٹیج سے اتر جاتے ہین۔ استاد بھی ان کے پیچھے پیچے اتر جاتا ہے۔  

               مسلمان کرداروں کا ایکشن پھر سے شروع ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ جام پی کر جھوم رہیں ہیں اور  مسخرے  اور قوال کی  اداؤں پر محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔  جھومتے جھومتے ایک کردار دوسرے سے ٹکرا جاتا ہے۔  اس پر دوسرے کے ہاتھ سے جام گر جاتا ہے۔ وہ غصے میں آ جاتا ہے اور دوسرے کا گریباں پکڑ لیتا ہے۔  اس پر پہلے والا تلوار نکال لیتا ہے۔ دوسرے والا بھی اپنی تلوار نکال لیتا ہے اور دونوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر قوال اور مسخرا سٹیج سے بھاگ جاتے ہیں۔  لیکن دونوں کرداروں کے  مابین خوب تلوار زنی ہوتی ہے  پس منظر اسی اعتبار سے دھن بھی  بج رہی ہوتی ہے۔ دونوں کے جھگڑے کے درمیان انگریز سٹیج پر واپس آتے ہیں۔  ہاتھ میں ان کے بندوقیں ہیں۔  آ کر للکارنے والا اشارہ کرتے ہیں۔ دونوں لڑتے کردار رک کر اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ پھر وہ ان کی ہاتھوں میں  بندوقوں کو حیران ہو کر دیکھتے ہیں۔  وہ بندوقیں لہرا کر انہیں دکھاتے ہیں۔ انگریزوں کی طرف سے نریٹر کی آواز آتی ہے:

 

گُلزارِ ہَست و بُود  نہ  بيگانہ وار ديکھ

ہے ديکھنے کی چيز  اِسے  بار بار ديکھ

آياہے تو جہاں ميں مِثالِ شرار ديکھ

دَم دے نہ جائے ہستیِ ناپائدار ديکھ

 انگریز سٹیج پر اشاروں سے اظہار کر رہے ہوتے ہیں جیسے یہ اشعار وہ کہہ رہے ہیں۔ پھر مسلمانوں کی طرف سے نریٹر بولتا ہے۔ وہ انگریزوں کی آنکھوں میں گھورتے ہوئے ان اشعار کا اظہار کرتے ہیں:

اگر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس

اگر لہو ہے بدن میں تو دل ہے بے وسواس

جسے ملا یہ متاع گراں بہا اس کو

نہ سیم و زر سے محبت ہے ،نےَ غم افلاس

ان اشعار کا اظہار کر کے وہ انگریزوں پر دیوانہ وار جھپٹ پڑتے ہیں۔وہ جھپٹتے ہیں تو انگریز ان پر بندوق تان کر گولی چلا دیتے ہیں۔  دونوں کردار نیچے گر کر کراہنے کا اشارہ کرنے لگتے ہیں۔   انگریز انہیں ٹھوکر لگاتے ہیں اور پھر گھسیٹتے ہوئے سٹیج پر الگ الگ  کر  دیتے ہیں۔  پھر سٹیج کی ایک طرف پڑی بیڑیاں ان کو ڈالتے ہیں۔ پھر انگریزوں کا ایک جرنیل سٹیج پر داخل ہوتا ہے۔   دونوں کرداروں کو کراہتے ہوئے دیکھتا ہے اور طنزیہ مسکراتا ہے۔ نریٹر کی آواز آتی ہے:

اے مرغک بیچارہ ذرا یہ تو بتا تو ُ

تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات

افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو

دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

 ان اشعار کے بعد  جرنیل  احکامات جاری کرنے والے انداز میں اشارے کرتا ہے۔ نریٹر یہ اشعار بولتا ہے:

لا کر بَرہمنوں کو سیاست کے پیچ میں

زُناّریوں کو دَیرِ کُہن سے نکال دو

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات

اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج

مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو

ان اشعار کے بعد جرنیل متکبر انداز میں سٹیج سے چلا جاتا ہے۔ مسلمان سٹیج پر کراہ رہے ہوتے ہیں۔  نریٹر سٹیج پر واپس آتا ہے۔ پس منظر میں شکستگی کے اظہار والی دھن سنائی دے رہی ہے۔  نریٹر مرثیہ خوانہ انداز میں یہ اشعار کہتا ہے:

زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار

رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار

اس زیاں خانے میں کوئی ملّتِ گردُوں وقار

رہ نہیں سکتی ابد تک بارِ دوشِ روزگار

اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خُوگر جہاں

دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں

ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار

ذوقِ جدّت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار

ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نو

مادرِ گیتی رہی آبستنِ اقوامِ نو

ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر

چشمِ کوہِ نُور نے دیکھے ہیں کتنے تاجوَر

مصر و بابِل مٹ گئے، باقی نشاں تک بھی نہیں

دفترِ ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں

آ دبایا مہرِ ایراں کو اجل کی شام نے

عظمتِ یُونان و روما لُوٹ لی ایّام نے

آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا

آسماں سے ابرِ آذاری اُٹھا، برسا، گیا

نریٹر اور مسلمان کردار آہ۔۔۔آہ۔۔۔آہ۔۔۔۔آہ کہہ کر کراہتے ہیں۔  کراہتا کراہتا نریٹر سٹیج سے اتر جاتا ہے۔ سٹیج پر  سفید باریش بزرگ کا روپ دھارے ایک کردار داخل ہوتا ہے۔ افسردگی سے مسلم کرداروں کو دیکھتا ہے۔ پھر سٹیج کے درمیان آ کر اوپر دیکھنے لگتا ہے۔ نریٹر شکوہ کے یہ اشعار بولتا ہے:

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں ہمہ تن گوش رہوں

ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

ہے بجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

 قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم

 نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا شکوہ ارباب وفا بھی سن لے

خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

بَس رہے تھے یہیں سلجوقی بھی ، تُورانی بھی

اہلِ چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی

اسی معمورے میں آباد تھے یُونانی بھی

اسی دنیا میں یہودی بھی تھے نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اُٹھائی کس نے؟

بات جو بگڑی تھی وہ بنائی کس نے؟

تُو ہی کہہ دے کہ اُکھاڑا درِ خیبر کس نے؟

شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟

توڑے مخلوقِ خداوندوں کے پیکر کس نے؟

کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے؟

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو ؟

کس نے پھر زندہ کیا تذ کرۂ یزداں کو؟

کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی؟

اور تیرے لئے زحمت کشِ پیکار ہوئی؟

کس کی شمشیرِجہانگیر جہاندار ہوئی؟

کس کی تکبیر سے دنیا تیری بیدار ہوئی؟

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے!

بحرِ ظُلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے !

صفحہ ٔ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا ہم نے

ترے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے

ترے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پِھر بھی ہم سے یہ گِلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں ، تُو بھی تو دلدار نہیں !

اُمتیں اور بھی ہیں ، اُن میں گناہگار بھی ہیں

عجز والے بھی ہیں ، مستِ مئے پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں ، غافل بھی ہیں ، ہُشیار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گِرتی ہے تو بیچارے مُسلمانوں پر

بُت صنم خانوں میں کہتے ہیں مُسلماں گئے

ہے خُوشی اُن کو کہ کعبے کے    نگہباں گئے

منزلِ دَہر سے کعبے کے حُدی خوان گئے

اپنی بغلوں میں دبائے ہُوئے قُرآن گئے

خندہ زن کُفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں ؟

اپنی توحید کا کُچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں ؟

یہ شکایت نہیں ، ہیں اُن کے خزانے معمور

نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور

اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں

بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

کیوں مُسلمانوں میں ہے دولتِ دُنیا نایاب ؟

تیری قُدرت تو ہے وہ جس کی نہ حَد ہے نہ حِساب

تُو جو چاہے تو اُٹھے سینہء صحراء سے حباب

رہروء دشت ہو سیلی زدہء موجِ سَراب

طعنِ اغیار ہے ، رُسوائی ہے ، ناداری ہے

کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے ؟

دردِ لیلٰی بھی وُہی ، قیس کا پہلو بھی وُہی

نجد کے دشت و جبل میں رمِ آہو بھی وُہی

عِشق کا دِل بھی وُہی ، حُسن کا جادُو بھی وُہی

اُمتِ احمدِ مرسل بھی وُہی ، تُو بھی وُہی

پھر یہ آزُردگیٔ غیرِ سبب کیا معنی؟

اپنے شیداؤں پہ یہ چشمِ غضب کیا معنی؟

تُجھ کو چھوڑا کہ رسُولِ عربی کو چھوڑا ؟

بُت گری پیشہ کیا ؟ بُت شکنی کو چھوڑا ؟

عِشق کو ، عِشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا ؟

رسمِ سلمان و اویسِ قرنی کو چھوڑا ؟

آگ تکبیر کی سِینوں میں دبی رکھتے ہیں !

زندگی مثلِ بلالِ حبشی رکھتے ہیں !

آج کیوں سِینے ہمارے شرر آباد نہیں

ہم وُہی سوختہ ساماں ہیں ، تُجھے یاد نہیں ؟

پس منظر میں زور دار بجلی کڑکتی ہے۔ سب کردار سہم جاتے ہیں۔ پردے کے پیچھے سے جواب شکوہ کے اشعار نریٹر پڑھتا ہے:

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اٹھتی ہے ، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں

شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجود ملائک' يہ وہی آدم ہے

عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے

ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو

ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئی سائل ہی نہيں

راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہی نہيں

تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہی نہيں

جس سے تعمير ہو آدم کی' يہ وہ گل ہی نہيں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں

ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں

ہاتھ بے زور ہيں، الحاد سے دل خوگر ہيں

امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں

بت شکن اٹھ گئے' باقی جو رہے بت گر ہيں

تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے

ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياری ہے

طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے

تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟

قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھی نہيں

جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھی نہيں

جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن، تم ہو

نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو

بجلياں جس ميں ہوں آسودہ، وہ خرمن تم ہو

بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟

نوع انساں کو غلامی سے چھڑايا کس نے؟

ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟

ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟

تھے تو آبا وہ تھارے ہی، مگر تم کيا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور

مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم ميں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہيں

جلوئہ طور تو موجود ہے' موسی ہی نہيں

منفعت ايک ہے اس قوم کی' نقصان بھی ايک

ايک ہی سب کا نبی' دين بھی' ايمان بھی ايک

حرم پاک بھی' اللہ بھی' قرآن بھی ايک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں

کيا زمانے ميں پنپنے کی يہي باتيں ہيں

کون ہے تارک آئين رسول مختار؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟

کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟

ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟

قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں

کچھ بھی پيغام محمدؐ کا تمھيں پاس نہيں

واعظ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی

شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود

ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھی کہيں مسلم موجود

وضع ميں تم ہو نصاری تو تمدن ميں ہنود

يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود

يوں تو سيد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا

اس کے آئينۂ ہستی ميں عمل جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلمانی ہے

حيدری فقر ہے ،نے َدولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم

تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم

چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم

پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلب سليم تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کی

نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت ميں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں ، دين سے بدظن بھی ہوئے

آج بھی ہو جو براہيم کا ايماں پيدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پيدا

کشتی حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے

عصرِ نوَ رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاری کا

غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداری کا

تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاری کا

امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داری کا

کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعداء سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعداء سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقيقت تيری

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تيری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تيری

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تيری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحيد کا اتمام ابھی باقی ہے

عقل ہے تيری سپر، عشق ہے شمشير تری

مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تری

ماسوی اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تری

تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تری

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں

يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں

ان اشعار کے بعد نریٹر خاموش ہوا تو پردہ گر گیا۔

متعلقہ عنوانات