دل سے نکلی ہے داستاں شاید

دل سے نکلی ہے داستاں شاید
ایک اک حرف ہے زباں شاید


آؤ آگے قدم بڑھائیں ذرا
ٹھہرا ٹھہرا ہے کارواں شاید


مجھ کو پہنچا دے میری منزل تک
جذبۂ شوق کامراں شاید


دل یقیناً ہے سلطنت اس کی
ہے وہی دل پہ حکمراں شاید


مستقل امتحان گاہ میں ہوں
وہ بھی لے میرا امتحاں شاید


آج ڈوبے ہیں گہری فکر میں وہ
میری آنکھیں ہیں ترجماں شاید


ہم زمیں پر ہیں صرف اک مخلوق
آسماں پر ہے آسماں شاید


ان کے چہرے کی ایک ایک لکیر
شیشہ گر کی ہے اک دکاں شاید


بھول کر بھی تو خط نہیں لکھتے
ہو گئے ہیں وہ بد گماں شاید


کاروان حیات رقص میں ہے
منزلیں ہو گئیں رواں شاید


دل سمجھتے ہیں جس کو اہل عشق
اک شکستہ سا ہے مکاں شاید


کچھ حجابات رہ گئے باقی
آپ کے میرے درمیاں شاید


ہر جگہ ہے رضاؔ وہی موجود
میں جہاں ہوں وہاں نہیں شاید