دل ہمیں چاک گریباں نہیں ہونے دیتا

دل ہمیں چاک گریباں نہیں ہونے دیتا
اور جنوں تنگئ داماں نہیں ہونے دیتا


ایک سایا ہے جو مجھ میں کہیں پوشیدہ ہے
ایک سورج ہے کہ تاباں نہیں ہونے دیتا


ایک جالا ہے جو دانائی نے بن رکھا ہے
میں جو چاہوں بھی تو ناداں نہیں ہونے دیتا


تھام لیتا ہے کوئی دامن امکان سراب
کیوں ہمیں صرف نگاراں نہیں ہونے دیتا


مر ہی جائیں گے پشیماں جو ہوئے عشق میں ہم
بس یہی خوف پشیماں نہیں ہونے دیتا


بس وہی خواب کہ جو دید کی حسرت میں مٹا
آنکھ کو خانۂ ویراں نہیں ہونے دیتا


کوئی اس انجمن آرائی سے نالاں ہے کہ جو
بس یہاں جشن بہاراں نہیں ہونے دیتا