دل اکیلا ہے بے قراری ہے
دل اکیلا ہے بے قراری ہے
اور ادھر کائنات ساری ہے
لالہ و گل یہ چاند یہ تارے
ایک ایک شے یہاں تمہاری ہے
تم نے کیسی نظر سے دیکھ لیا
آج تک دل پہ کیف طاری ہے
جو کبھی صبح تک پہنچ نہ سکی
ہم نے ایسی بھی شب گزاری ہے
پھول بھی ہیں چمن میں کانٹے بھی
اپنی ہر چیز ہم کو پیاری ہے
یہ تو گل کی ہنسی بتائے گی
کس نے رو رو کے شب گزاری ہے
ہائے مجبوریٔ محبت نورؔ
زیست کیا ایک شب گزاری ہے