دشت ہم تجھ سے تعلق کو نبھاتے کیسے

دشت ہم تجھ سے تعلق کو نبھاتے کیسے
ہم بھلا ان کی گلی چھوڑ کے جاتے کیسے


ان کی آنکھوں میں کوئی اور بسا تھا شاید
ہم سے وہ نظریں ملاتے تو ملاتے کیسے


ان کے چہرے پہ کسی اور کا حق تھا شاید
ہم تو قدموں سے توجہ کو ہٹاتے کیسے


میری ہی جان کا وہ مان سے حق مانگتا تھا
پگلا یار تھا وہ جان بچاتے کیسے


اس نے پوچھا ہی نہ تھا کون ہیں کیوں آئے ہیں
ہم بھی خوددار تھے پھر حال سناتے کیسے


بشریٰؔ ہم اپنے کیے پر بھی نہ پچھتا پائے
دل کو بے فیض زمانے میں لگاتے کیسے