دشت تخیلات میں جب بھی سفر ہوا

دشت تخیلات میں جب بھی سفر ہوا
جانے کہاں کہاں سے ہمارا گزر ہوا


لوگو کی تلخیوں کا کچھ ایسا اثر ہوا
دل کے ہر ایک گوشے میں رقص شرر ہوا


اس کی طرف سے میں تو ہوا بے خبر مگر
میری طرف سے وہ نہ کبھی بے خبر ہوا


بگڑی ہے ایسی شکل حوادث کی مار سے
حیران آئنہ بھی مجھے دیکھ کر ہوا


اک بار ہی تو کاندھے پہ رکھا تھا اس نے سر
پھر ایسا اتفاق کہاں عمر بھر ہوا


جس کی نظر میں وسعت خواب و خیال تھی
اس کا وجود مرکز اہل نظر ہوا


پہلے تو اک مکان کی صورت ہی تھا فقط
تشریف آپ لائے تو گھر میرا گھر ہوا


اس کو ہماری دشت نوردی سے ہے خوشی
اس سے غرض نہیں کہ کوئی در بدر ہوا


سب کی سمجھ میں آتا کہاں ہے یہ علم و فن
جس نے سمجھ لیا اسے وہ دیدہ ور ہوا


رہبرؔ طویل عمر بھی جینے سے فیض کیا
کچھ مقصد حیات نہ پورا اگر ہوا