بھیس بنائے گھوم رہا ہے دیوانہ گلیوں گلیوں

بھیس بنائے گھوم رہا ہے دیوانہ گلیوں گلیوں
کون ملے گا دیکھیں اپنا بیگانہ گلیوں گلیوں


سڑکوں پر پہرہ دیتی آنکھوں سے الجھے کون بھلا
تم کو آنا ہو تو اب کے آ جانا گلیوں گلیوں


دیکھو اک دن تھک جائیں گے تھک کے رک جائیں گے قدم
وہی صبح سے شام تمہارا بھٹکانا گلیوں گلیوں


دل کی منزل تھی کہ ہوس کی گردش تھی معلوم نہیں
جانے کون لیے پھرتا تھا انجانا گلیوں گلیوں


اے آزادؔ یہی نکلا صدیوں کی مسافت کا حاصل
ایک اداسی کے عالم کا چھا جانا گلیوں گلیوں