بہت راز ہیں زندگی سے بھی آگے

بہت راز ہیں زندگی سے بھی آگے
مقام اور نہیں دوستی سے بھی آگے


مریں تو ملیں زندگی کے اشارے
مگر موت پھر زندگی سے بھی آگے


بہت دور تک دب چلے روشنی میں
اندھیرے ملے روشنی سے بھی آگے


نہ اپنا پتہ ہے نہ ان کی خبر ہے
کہاں آ گئے بے خودی سے بھی آگے


نہ احساس مالک نہ احساس خدمت
مقام آ گیا بندگی سے بھی آگے


نظر جم گئی روئے تاباں پہ آخر
ہے کچھ اور نظارگی سے بھی آگے


عبادت کے لاکھوں طریقے ہیں لیکن
ہوا نے کوئی زندگی سے بھی آگے


کوئی دیوتا ہو کوئی ہو فرشتہ
چلا نے کوئی آدمی سے بھی آگے


ہوا صاف دل تو یہ آواز آئی
گیا شوقؔ اب راستی سے بھی آگے


غم زندگی میں سکوں مل گیا ہے
نکل آئے دل کی لگی سے بھی آگے