بڑھ گیا درد دواؤں کا اثر ہونے تک

بڑھ گیا درد دواؤں کا اثر ہونے تک
چھوڑ کر چل دیا بیمار خبر ہونے تک


جب سے بیمار کی رخصت کا یقیں آنے لگا
آنکھ لگتی ہی نہیں اب تو سحر ہونے تک


آبلے پھوٹ کے روتے رہے رفتار کے ساتھ
پھول کھلتے رہے انجام سفر ہونے تک


اک ریاضت ہے عبادت ہے یہ تخلیق کا فن
وقت درکار ہے پودے کو شجر ہونے تک


چیخ کر رو دیا بادل کہ ہواؤں کا غرور
کس طرح ٹوٹ گیا معرکہ سر ہونے تک


یہ دعا ہے کہ ہر آنگن کا شجر پھولے پھلے
پھول کھلتے رہیں شاخوں پہ ثمر ہونے تک


ان کو معلوم جو ہوتا تو کرم کر دیتے
ہم یہاں مٹ بھی گئے ان کو خبر ہونے تک


چڑھتے سورج کی پرستار بنی تھی دنیا
ہم بھی دیکھا کئے عیبوں کو ہنر ہونے تک


شعر گوئی کوئی آسان نہیں ہے نکہتؔ
بال پک جاتے ہیں لفظوں میں اثر ہونے تک