بچوں کی چوری کی عادت کیسے چھڑائیں؟

چوری کرنا یقیناً بہت بری عادت ہے اور ہم اپنے بچوں کو اس سےبچانا چاہتے ہیں۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ماں باپ کی کوشش اور سزا کے باوجود کچھ بچوں میں یہ عادت دن بدن پختہ ہوتی جاتی ہے اور وہ اس کی وجہ سے خاصے بدنام ہوجاتےہیں۔ والدین کے لیے بھی بچوں کی چوری کی عادت خاصی پریشانی اور بسا اوقات خاصی شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔ کبھی ہمسائے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کا بچہ ہمارے گھر سے فلاں چیز اٹھا کر لے گیا ہے اور کبھی سکول سے ٹیچر لکھ بھیجتی ہیں کہ آپ کے بچے کے بیگ سے دوسرے بچوں کی اشیاء برآمد ہوئی ہیں۔ اکثر مائیں پہلے تو یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتیں اور الٹا چڑھائی کرتے نظر آتی ہیں کہ کیا ہمارا بچہ چور ہے، اور کیا آپ نے میرے بچے کو چور سمجھ رکھا ہے۔ لیکن جب ٹیچر ثبوت دیتی ہیں تو پھر شرمندہ ہو کر بسا اوقات اپنے بچے کو پیٹنے لگتی ہیں۔

یہ اور ایسی دیگر کئی مثالوں سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے بچے چور ہوتے ہیں یا ان کی چوری کی عادت اسی طرح ہوتی ہے جس طرح خدانخواستہ کسی بڑے مجرم کی عادت۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ ابتدائی عمر سے ہی بچوں کو چوری کی عادت سے بچانا چاہیے کیونکہ چھوٹی چھوٹی اشیاء کی چوری اگرچہ کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن یہ عادت اگر پختہ ہو جائے تو بڑے جرائم کی طرف بھی راغب کرسکتی ہے۔ بچے چوری کیوں کرتے ہیں اور ان کو چوری سے کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم چند ایسی تجاویز پیش کررہے ہیں جن سے آپ چوری کی عادات کا استیصال کرپائیں گے۔

بچے کی صحبت کا خیال کیجیے:

بعض اوقات بچے اپنے کسی قریبی دوست یا بڑے بچے کو ایسا کرتے دیکھتے ہیں اور اس کام کو برا نہیں سمجھتے اور یہ حرکت کرتے ہیں۔لہٰذا بہت ضروری ہے کہ بچوں کے دوستوں  اور ہمجولیوں کی بابت مکمل معلومات حاصل کی جائیں۔ فرض کریں کہ سکول سے آپ کے بچے کے متعلق چوری کرنے کی شکایت موصول ہوئی ہے توٹیچر سے کہہ کر فوراً بچے کی کلاس روم میں جگہ تبدیل کروائیں۔ اگر کچھ اور بچے بھی ساتھ شامل ہوں تو ٹیچر سے کہیں کہ وہ اس گروپ کو توڑیں اور سب بچوں کو مختلف جگہوں پر بٹھائیں اور ان کی نگرانی کریں۔آپ بھی یہ کیجیے کہ روزانہ بچے کا بیگ چیک کیجیے۔ اس میں بچے کی اشیاء کم نہیں ہونی چاہییں اور ظاہر ی بات ہے زیادہ بھی نہیں ہونی چاہییں۔ اگر آپ کوئی شے زیادہ دیکھتے ہیں تو پوچھیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس کی ہے۔ بچے  سے اسے واپس کرنے کا کہیے اور اگر بچہ ایک دو دن نہ مانے تو خود سکول جا کر واپس کر کے آئیے۔

اسی طرح گھر میں بچہ ملازمین وغیرہ کو بھی مختلف اشیا اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو خود کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا ملازمین کی عادات کا بھی خیال رکھیے کہ بچے ان سے اثر قبول کرتے ہیں۔  

بچے کی من پسند چیزوں سے زیادہ نہ روکیں:

بعض مائیں گھر میں ڈسپلن کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ گھر میں کھانے پینے کی ایسی کئی چیزیں پڑی ہوتی ہیں جو بچے کی من پسند ہوتی ہیں، لیکن بچے پر پابندی ہوتی ہے  کہ فلاں وقت میں اور اتنی تعداد میں ہی لینی ہے۔ زیادہ لینے پر سختی کی جاتی ہے اور سزا بھی دی جاتی ہے۔ لہٰذا بچہ چپکے سے چیز اٹھا لیتا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ  بچوں کو سمجھائیے ضرور تاہم بلاوجہ بہت زیادہ سختی مت کیجیے ۔ اگر بچہ کوئی گولی یا ٹافی زیادہ لے لیتا ہے تو اسے سزا مت دیجیے۔ ہاں سمجھائیے ضرور کہ اس سے دانت خراب ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ یا پھر اگر آپ اپنے ڈسپلن میں ذرا بھی نرمی کرنے پر تیار نہیں تو پھر ان چیزوں کو کسی لاک وغیرہ میں رکھیے تاکہ بچہ خود سے لے ہی نہ سکے۔ لیکن یہ کوئی زیادہ اچھی صورت نہیں ہوگی۔

کھلونوں کی چوری:

کھلونے چھوٹے بچوں کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہیں۔ بعض والدین بچوں کے کھلونوں کے حوالہ سے  خاصی لاپروائی برتتے ہیں یعنی استطاعت ہونے کے باوجود بچوں کو کھلونے لا کر نہیں دیتے۔ ایسے بچے جب ہمسائے یا دوسرے گھروں میں کھلونے دیکھتے ہیں تو ان کا بھی دل ان کھلونوں سے کھیلنے کو کرتا ہے اور وہ انہیں اٹھا لاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ہر کھلونا آپ بچے کو لا کر نہیں دے سکتے ۔ اس کے لیے اسے سمجھائیے۔ خود پیسے جوڑنے کی عادت ڈالیے اورکچھ آسان کھلونے خود بنانا بھی سکھائیے۔

پیسوں کی حفاظت کیجیے:

آج کل چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی یہ معلوم ہے کہ ہر چیز پیسے سے آتی ہے۔ باہر گلی میں کوئی پھیری والا آئے تو فوراً بچے آپ سے پیسے مانگنے لگتے ہیں۔ ہم کبھی تو بچوں کو دے دیتے ہیں اور کبھی انھیں ڈانٹ دیتے ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال کریں کہ بچے خود سے پیسے اٹھا کر چیز نہ لائیں۔ اس مقصد کے لیے اپنے بٹوے وغیرہ کی حفاظت کیجیے۔ مائیں عموماً اپنے پرس وغیرہ بچوں کے سامنے ہی کہیں رکھ دیتی ہیں، یہ بچوں کو اکسانے والی بات ہے۔

بچوں سے چوری کے متعلق بات کیجیے:

شاید سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ بچوں سے وقتاً فوقتاً چوری کی عادت اور اس کے  برے نتائج پر بات کی جائے۔ ہم اکثر بچوں کو ڈانٹ تو دیتے ہیں لیکن انہیں عقلی اور منطقی طور پر برائی کے نتائج سے آگاہ نہیں کرتے۔ بچوں سے دلیل سے بات کیجیے۔ انہیں بتائیے کہ اس سے دوسروں کا نقصان ہوتا ہے بالکل ویسے ہی  جیسے اگر ان کی کوئی چیز اٹھا لے تو ان کا نقصان ہوگا  وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح بچے معاشرے میں موجود معاشی تفاوت یعنی امیر غریب کے فرق کو نہیں سمجھ پارہے ہوتے اور ہر چیز حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس پر بات کیجیے اور بتائیے کہ وہ پڑھ لکھ کر ، محنت کرکے سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں لیکن چوری سے حاصل کرنا درست نہیں۔

متعلقہ عنوانات