تعلیم و تربیت ساتھ ساتھ: بچوں کو دوسروں کی خوشی اور ترقی کو برداشت کرنا سکھائیے
ہم صرف اپنے بچوں کی فکر کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہر بار پہلی پوزیشن لینا ہی کامیابی کی علامت ہے؟ ہم نے بچوں کو نبر گیم کی دوڑ میں لگا کر کیا نقصان اٹھایا؟ کیا ہم بچوں کو دوسروں کی ترقی اور خوشی برداشت کرنا سکھا رہے ہیں؟ والدین اور اساتذہ کے لیے ایک فکر انگیز تحریر
ہمارے ہاں نمبر گیم کی غیر فطری دوڑ کے ماحول میں بچوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی، خیرخواہی، اشتراک،باہمی احترام اور ایک دوسرے کی مدد جیسے جذبات اور اخلاقیات کو دفن کردیا گیا ہے۔ہمیں اس پر ضرور سوچنا چاہیے اور اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ زیر نظر تحریر ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر زوبیہ نورین کی ہے۔ وہ پی ایچ ڈی ایجوکیشن ہیں۔وہ سوشل میڈیا پر بچوں کی تعلیم و تربیت پر لکھتی رہتی ہیں۔ ان کے شکریہ کے ساتھ یہ تحریر پیش خدمت ہے۔ شکریہ مدیر الف یار ویب سائٹیوں تو روایتی نظام تعلیم نے ہم سے بہت کچھ چھینا لیکن آج ہم جس موضوع پر بات کریں گے وہ ہے:
دوسروں کی خوشی اور ترقی برداشت کرنا
صرف اپنی ترقی اور پوزیشن کی فکر میں رہنا اور دوسروں کی خوشی اور ترقی کو برداشت اور قبول نہ کرنے کے کیا اثرات مرتب کررہے ہیں۔۔۔ذرا ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:/1. سب سے پہلے تو ابتدائی سالوں میں امتحان کا نظام ہی ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں ۔بچےکا اس کی پچھلی کارکردگی کے ساتھ موازنہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن بچے کا دوسرے بچوں کی کارکردگی کے ساتھ کیا موازنہ ؟
2 . اچھے بھلے سمجھدار والدین پوزیشن ہولڈر بچوں کی بورڈز پر تصویریں دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور پھر اپنے بچے کو بھی مقابلے کی ریس میں جھونک دیتے ہیں۔
3. بچوں کو آگے بڑھنے اور خوشی خوشی سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے collaboration اور cooperation کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہاں پہلے دن سے ہی اساتذہ اور والدین مقابلہ بازی competition شروع کر دیتے ہیں۔
4. والدین جب اپنا بچہ سکول بھیجتے ہیں تو انہیں فرسٹ پوزیشن ہی چاہیے ۔ اگر وہ پوزیشن کسی اور بچے نے حاصل کر لی تو انہیں اپنے بچے پر غصہ آتا ہے وہ اسے برا بھلا کہتے ہیں یا اساتذہ پر جا کر غصہ نکالتے ہیں لیکن یہ نہیں سکھاتے کہ اگر کوئی آپ سے زیادہ کامیاب ہوا ہے تو اس کی کامیابی کو خوش دلی سے قبول کرو اسے مبارکباد دو ، اس کے لئے کوئی کارڈ ، گفٹ یا چاکلیٹ لے کر جاؤ ۔۔۔۔۔
5. کوئی بھی میدان ہو آرٹ کا مقابلہ ، پینٹنگ کا مقابلہ ، دوڑنے کا مقابلہ ہر ایک میں مجھے بس میرا ہی بچہ نمبر ون پر چاہیے باقی سب بھاڑ میں جائیں ۔۔۔کسی کی جیت تو ہم سے برداشت نہیں ہو رہی تو بچے کو کیا سکھائیں گے؟
6. ریسرچ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر وقت مقابلہ بازی میں رہنا بچے کے لئے بہت سٹریس کا باعث ہوتا ہے ۔7. جب ہم کسی سے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں تو ہمارے دل میں ان کے لئے بری فیلنگ اور احساسات جنم لیتے ہیں اور اگر اس حالت میں کوئ ہم سے آگے نکل جائے تو باقاعدہ اس سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔
8. ہارنے کا خوف اور ہار جانے کا احساس ۔۔۔ دوسری پوزیشن پر آنے کا خوف اور دوسری ، تیسری پوزیشن پر آنے کا احساس بچوں میں احساس کمتری پیدا کرتا ہے ۔۔۔ ان کا خود پر سے اعتماد اور سیلف اسٹیم ختم ہو سکتا ہے۔9. مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرے جو وہ اپنے لئے کرتا ہے ( حدیث کا مفہوم ) تو کیا ہم دوسروں کے بچوں کو بھی آگے بڑھتا دیکھ خوش ہوتے ہیں یا بس ہمیں اپنا ہی بچہ آگے چاہیے ؟؟؟ اور کیا ہم اس حدیث کو اپنے بچوں میں راسخ کر پائیں گے ؟؟؟؟
9. جب بچوں کو شروع سے ہی دوستوں سے مقابلہ کرنا , ان سے آگے بڑھنا سکھائیں گے تو ہمدردی ، باہمی احترام ، خدمت خلق اور فکر امہ جیسے جذبات کب پیدا (ڈیویلپ) کرنے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
ماحصل
خدارا بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے ان کی اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام کیجیے۔ ان کو نمبر گیم میں ہلکان نہ کیجیے، دوسروں کے لیے ہمدردی، خیر خواہی اور شراکت کے جذبات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی کامیابی کو قبول کرنا، انھیں اس کامیابی پر مبارک دینا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا بھی سکھائیے۔۔۔