واسطے جتنے تھے سب وہم و یقیں نے چھوڑے

واسطے جتنے تھے سب وہم و یقیں نے چھوڑے
آسماں سر سے ہٹا پاؤں زمیں نے چھوڑے


کون تھا کیوں نہ رہا کیسے کریں اس کا پتہ
اپنے دکھ بھی تو مکاں میں نہ مکیں نے چھوڑے


خلقت شہر نہ مانی مرا ملحد ہونا
ورنہ شوشے تو بہت مفتی دیں نے چھوڑے


ہم نہ آغاز کے مجرم تھے نہ انجام کے ہیں
ہاتھ میں ہاتھ لیے تم نے تمہیں نے چھوڑے


خواب کا ایک پرندہ بھی نہ تعبیر ہوا
جس قدر تیر گماں میں تھے یقیں نے چھوڑے


وصل کے سیکڑوں وعدوں سے بھی مدھم نہ ہوئے
دل پہ جو نقش تری ایک نہیں نے چھوڑے


پاؤں جمتے ہیں کہیں پر نہ نظرؔ رکتی ہے
ہاتھ جب ث مرے اک دست حسیں نے چھوڑے