عشق سے کیسے بعض آئیں ہم عشق تو اپنا دھرم ہوا

عشق سے کیسے بعض آئیں ہم عشق تو اپنا دھرم ہوا
جس دن عشق سے ناطہ ٹوٹا سمجھو کریہ کرم ہوا


پھر یادیں گھر گھر کر آئیں پھر سلگے بن زخموں کے
پھر بوندوں نے آگ لگائی پھر ساون سرگرم ہوا


روپ تو اس کو ایسا دیتے دنیا دیکھتی لیکن ہم
بت سازی ہی چھوڑ چکے تھے جب وہ پتھر نرم ہوا


کیسے تیشہ و تیغ بناتے کیسے ضرب لگاتے لوگ
ہتھکڑیاں تھیں سب کے ہاتھوں میں جب لوہا گرم ہوا


ہم شب‌ زندہ داروں کی بینائی بھی تھی شرمندہ
دیکھ کے اپنا چہرہ سورج آپ بہت بے شرم ہوا