پتھراؤ

درد تھمتا بھی نہیں
حد سے گزرتا بھی نہیں
بھول کر تجھ کو عجب حال ہوا ہے دل کا
سالہا سال سے دل
مندمل ہوتا ہوا گھاؤ ہے
ڈوبتی ہے کوئی حسرت نہ ابھرتی ہے امید
بحر آلام میں طوفاں ہے نہ ٹھہراؤ ہے
افق زیست پہ طلعت ہے نہ تاریکی ہے
دور تک دھند کا موہوم سا کجراؤ ہے
ساحل چشم پہ تارے ہیں نہ موتی ہیں نہ اشک
سوچ کا ہاتھ ہے احساس کا پتھراؤ ہے
ڈوبتی بھی نہیں سیدھی بھی نہیں ہوتی ہے
عمر کی لہر پہ جاں الٹی ہوئی ناؤ ہے
تختیاں جس کی ترے پیار سے پیوستہ ہیں
بادباں جس کا مرے سانس کا پھیلاؤ ہے
سانس رکتا بھی نہیں
ٹھیک سے چلتا بھی نہیں
بھول کر تجھ کو عجب حال ہے دل کا