ظلم تو یہ ہے کہ شاکی مرے کردار کا ہے

ظلم تو یہ ہے کہ شاکی مرے کردار کا ہے
یہ گھنا شہر کہ جنگل در و دیوار کا ہے


رنگ پھر آج دگر برگ دل زار کا ہے
شائبہ مجھ کو ہوا پر تری رفتار کا ہے


اس پہ تہمت نہ دھرے میرے جنوں کی کوئی
مجھ پہ تو سایہ مرے اپنے ہی اسرار کا ہے


صرف یہ کہنا بہت ہے کہ وہ چپ چاپ سا تھا
اس کو اندازہ مرے شیوۂ گفتار کا ہے


کس نے کس حال میں چھوڑا تھا وفا کا دامن
مسئلہ یہ تو مری جاں بڑی تکرار کا ہے


رات بھر نیند نہ آنے کا گلا کس سے کروں
اس میں بھی ہاتھ مرے طالع بیدار کا ہے


درد کی دھوپ سے بچنے کے تردد میں کھلا
سلسلہ تا بہ افق خوف کے اشجار کا ہے


رات دن کھوج میں دریا کی صدا رہتی ہے
آدمی کوئی ترے گاؤں میں اس پار کا ہے


ہر گھڑی محتسب شہر ہو موجود جہاں
کام اس بزم میں کیا مجھ سے گنہ گار کا ہے


جھولنا دار پہ اس عہد میں آساں ہے مگر
مرحلہ سخت بہت جرأت اظہار کا ہے


زندگی ساعت موجود کے قدموں میں جھکاؤ
فیصلہ آج یہی وقت کے دربار کا ہے


کس نئے غم سے چراغاں ہے نظر محفل‌ جاں
رنگ کچھ اور ہی اب کے ترے اشعار کا ہے