اسی کا درد ہے جس کے جگر کا لاشہ ہے

اسی کا درد ہے جس کے جگر کا لاشہ ہے
میں جانتا ہوں کہ باقی تو سب تماشہ ہے


میں کیا بتاؤں جو ٹوٹا ہے مجھ پہ ظلم و ستم
میں کیا لکھوں کہ مرا درد بے تحاشہ ہے


بنی ہیں سازشیں موسم نے دھوپ سے مل کر
ہوا نے میرے ہر اک پھول کو خراشا ہے


امیر شہر میں تجھ کو تری دہائی دوں
کہ میرا تولا بھی تیری نظر میں ماشہ ہے


اجاڑتے ہوئے وہ کانپتا تو ہوگا زبیرؔ
وہ خواب ہاتھ نہیں خون سے تراشا ہے