میں کیسے جھیل سکوں گا بنانے والے کا دکھ

میں کیسے جھیل سکوں گا بنانے والے کا دکھ
چھری چھری پہ لکھا ہے لگانے والے کا دکھ


غضب کی آنکھ اداکار تھی مگر ہائے
تمہاری بات ہنسی میں اڑانے والے کا دکھ


غزل میں درد کی پہلے بھی کچھ کمی نہیں تھی
اور اس پہ ہو گیا شامل سنانے والے کا دکھ


تجھے تو دکھ ہے فقط اپنی لا مکانی کا
قیام کر تو کھلے گا ٹھکانے والے کا دکھ


بدن کے چیتھڑے اڑتے کہیں ہواؤں میں
سنانے والے سے کم تھا چھپانے والے کا دکھ


زمانے عشق کی تفہیم تو ذرا کرنا
بے روزگار بتائے کمانے والے کا دکھ


گرانے والے کے احساس میں نہیں قیصرؔ
یہ آسماں کو زمیں پر اٹھانے والے کا دکھ