Zafar Akbarabadi

ظفر اکبرآبادی

ظفر اکبرآبادی کی غزل

    کسی کی پرشش غم بار ہو گئی ہوگی

    کسی کی پرشش غم بار ہو گئی ہوگی تمام دکھ ہمہ آزار ہو گئی ہوگی شدید موت کی یلغار ہو گئی ہوگی حیات ریت کی دیوار ہو گئی ہوگی وہ ایک چیز شرافت سے جو عبارت ہے ہماری رات کی دیوار ہو گئی ہوگی حدیث دل لب اظہار کے توسط سے حدیث کوچہ و بازار ہو گئی ہوگی طبیعت اپنی جو آزار سے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم اس کے دھیان میں آئیں گے دھیان میں بھی نہ تھا

    ہم اس کے دھیان میں آئیں گے دھیان میں بھی نہ تھا یقیں کا ذکر تو کیا ہے گمان میں بھی نہ تھا یہ پست تھی بھی تو کیا وہ بلند تھا بھی تو کیا زمیں کا حسن مگر آسمان میں بھی نہ تھا وہ سایہ جس کے لئے دھوپ سے گریز کیا نشان اس کا کہیں سائبان میں بھی نہ تھا تھکی تھکی سی چھتیں تھیں شکستہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسے جذبۂ تحقیر سے زمانہ ملا

    کچھ ایسے جذبۂ تحقیر سے زمانہ ملا کہ اس سے اپنا یہ خوددار دل ذرا نہ ملا بچھڑ کے رہ گئے خود سے جو گم ہوئے اس میں ہزار ڈھونڈا مگر اپنا کچھ پتا نہ ملا وہ شور کار گہہ زندگی میں تھا برپا کوئی جواب مجھے اپنی بات کا نہ ملا بلا کی تیز خرامی تھی ہر مسافر میں عدم کی راہ میں کوئی شکستہ پا نہ ...

    مزید پڑھیے

    تھی میرے دل کی پیاس تپش دشت کی نہ تھی

    تھی میرے دل کی پیاس تپش دشت کی نہ تھی بجھتی سمندروں سے یہ وہ تشنگی نہ تھی خود میں مگن تھے لوگ کوئی بے خودی نہ تھی دیوانگی کا ڈھونگ تھا دیوانگی نہ تھی رستہ بھی اب تو بھول گئے اپنے گھر کا ہم وارفتگی تو تھی مگر اتنی کبھی نہ تھی اپنی صدا کی گونج تھی صحرائے زیست میں اس کے سوا کہیں ...

    مزید پڑھیے

    پھرے ہیں دھن میں تری ہم ادھر ادھر تنہا

    پھرے ہیں دھن میں تری ہم ادھر ادھر تنہا تجھے تلاش کیا ہے نگر نگر تنہا ہمارے ساتھ سبھی ہیں مگر کوئی بھی نہیں ہم انجمن میں ہیں بیٹھے ہوئے مگر تنہا گواہ ہیں رہ شوق و طلب کے سناٹے کیا ہے ہم نے یہ صبر آزما سفر تنہا چلے گئے ہیں نجانے کہاں شریک سفر مجھے حیات کی راہوں میں چھوڑ کر ...

    مزید پڑھیے

    دنیا مزاج دان و مزاج آشنا نہ تھی

    دنیا مزاج دان و مزاج آشنا نہ تھی دنیا کے پاس زہر بہت تھا دوا نہ تھی روشن تھا دل میں صرف کسی یاد کا چراغ گھر میں کوئی بھی روشنی اس کے سوا نہ تھی میں تھا وفا سرشت مجھے تھی وفا عزیز وہ تھا بہانہ جو اسے خوئے بہا نہ تھی یوں کوئی میرے پاس سے ہو کر گزر گیا جیسے کبھی نظر سے نظر آشنا نہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے خدشہ ہے اپنی چشم تر سے

    مجھے خدشہ ہے اپنی چشم تر سے کہیں پانی گزر جائے نہ سر سے جلا دی ہیں ابھی سے میں نے شمعیں مجھے ہے انتظار شب سحر سے سفینے واقعی ہوں گر سفینے تو کب مرعوب ہوتے ہیں بھنور سے ہوا یوں درمیاں حائل زمانہ ہم اوجھل ہو گئے اپنی نظر سے انہیں داد سفر دیتی ہے منزل جو گھبراتے نہیں طول سفر ...

    مزید پڑھیے

    کبھی اسے تو کبھی خود کو دیکھتے رہنا

    کبھی اسے تو کبھی خود کو دیکھتے رہنا اسی مدار میں دن رات گھومتے رہنا ہم اپنا فرض کریں گے ادا بہ ہر صورت ہمارا کام ہے راہیں تراشتے رہنا وہ محو ہونا مرا شام سے تری دھن میں تمام رات تری راہ دیکھتے رہنا نہ ہونے دینا کبھی پست حوصلوں کی فصیل کمند چاند ستاروں پہ ڈالتے رہنا اٹھائے ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم پر اک نیا دکھ خیر خواہوں سے ملا

    ہر قدم پر اک نیا دکھ خیر خواہوں سے ملا کب ہمیں کوئی تحفظ ان پناہوں سے ملا خود نمائی کے سوا کیا کج کلاہوں سے ملا صرف اک جھوٹا تفاخر تھا جو شاہوں سے ملا لوگ خالی ہاتھ آئے ہیں جہاں سے لوٹ کر درد کا تحفہ ہمیں ان بارگاہوں سے ملا ایک مرکز پر ہوئے یکجا کہاں پست و بلند کب فقیروں کا ...

    مزید پڑھیے

    ہزار صبح نے کرنوں کے جال پھیلائے

    ہزار صبح نے کرنوں کے جال پھیلائے مگر سمٹ نہ سکے رات کے گھنے سائے طواف کرتی ہے منزل اسی مسافر کا جو راستوں کے خم و پیچ سے نہ گھبرائے یہ انتظار کی گھڑیاں بڑی غنیمت ہیں خدا کرے کہ یوں ہی زندگی گزر جائے شمیم گل سے کسی پیرہن کی خوشبو تک تھے سلسلے ہی کچھ ایسے کہ جو نہ راس آئے خیال ...

    مزید پڑھیے