مجھے خدشہ ہے اپنی چشم تر سے

مجھے خدشہ ہے اپنی چشم تر سے
کہیں پانی گزر جائے نہ سر سے


جلا دی ہیں ابھی سے میں نے شمعیں
مجھے ہے انتظار شب سحر سے


سفینے واقعی ہوں گر سفینے
تو کب مرعوب ہوتے ہیں بھنور سے


ہوا یوں درمیاں حائل زمانہ
ہم اوجھل ہو گئے اپنی نظر سے


انہیں داد سفر دیتی ہے منزل
جو گھبراتے نہیں طول سفر سے


ترے آگے کوئی کیا لب کشا ہو
دھڑک اٹھتے ہیں دل تیری نظر سے


بہت صحرا کو تھیں جن سے امیدیں
وہ بادل بھی ظفرؔ گلشن پہ برسے