کسی کی پرشش غم بار ہو گئی ہوگی
کسی کی پرشش غم بار ہو گئی ہوگی
تمام دکھ ہمہ آزار ہو گئی ہوگی
شدید موت کی یلغار ہو گئی ہوگی
حیات ریت کی دیوار ہو گئی ہوگی
وہ ایک چیز شرافت سے جو عبارت ہے
ہماری رات کی دیوار ہو گئی ہوگی
حدیث دل لب اظہار کے توسط سے
حدیث کوچہ و بازار ہو گئی ہوگی
طبیعت اپنی جو آزار سے نہیں بھرتی
حریص لذت آزار ہو گئی ہوگی
اٹھی جو ہوگی کبھی دل سے کوئی درد کی لہر
حریف دیدۂ خوں بار ہو گئی ہوگی
جو ہم پہ سایۂ ادبار ہے تو سست ضرور
ہمارے کام کی رفتار ہو گئی ہوگی
یہ ذلتوں کی جو بھر مار ہے تو اپنی خطا
اسی سزا کی سزاوار ہو گئی ہوگی
جواب میں مری کوتاہ دستیوں کے ظفرؔ
بلند اور وہ دیوار ہو گئی ہوگی