کچھ ایسے جذبۂ تحقیر سے زمانہ ملا

کچھ ایسے جذبۂ تحقیر سے زمانہ ملا
کہ اس سے اپنا یہ خوددار دل ذرا نہ ملا


بچھڑ کے رہ گئے خود سے جو گم ہوئے اس میں
ہزار ڈھونڈا مگر اپنا کچھ پتا نہ ملا


وہ شور کار گہہ زندگی میں تھا برپا
کوئی جواب مجھے اپنی بات کا نہ ملا


بلا کی تیز خرامی تھی ہر مسافر میں
عدم کی راہ میں کوئی شکستہ پا نہ ملا


جو لوگ ذات کے جنگل میں رہ گئے گھر کر
انہیں پھر اس سے نکلنے کا راستہ نہ ملا


وہ بات بات کا ٹوٹا ہوا تسلسل تھا
کہ سلسلے سے یہاں کوئی سلسلہ نہ ملا


شریک حال رہی مستقل عطا اس کی
ظفرؔ طلب سے مری کب مجھے سوا نہ ملا