ہم اس کے دھیان میں آئیں گے دھیان میں بھی نہ تھا
ہم اس کے دھیان میں آئیں گے دھیان میں بھی نہ تھا
یقیں کا ذکر تو کیا ہے گمان میں بھی نہ تھا
یہ پست تھی بھی تو کیا وہ بلند تھا بھی تو کیا
زمیں کا حسن مگر آسمان میں بھی نہ تھا
وہ سایہ جس کے لئے دھوپ سے گریز کیا
نشان اس کا کہیں سائبان میں بھی نہ تھا
تھکی تھکی سی چھتیں تھیں شکستہ دیواریں
سلامتی کا تو امکاں مکان میں بھی نہ تھا
پرندے پھر بھی فضا میں تھے پر سمیٹے ہوئے
ظفرؔ مخل کوئی ان کی اڑان میں بھی نہ تھا