ہر قدم پر اک نیا دکھ خیر خواہوں سے ملا
ہر قدم پر اک نیا دکھ خیر خواہوں سے ملا
کب ہمیں کوئی تحفظ ان پناہوں سے ملا
خود نمائی کے سوا کیا کج کلاہوں سے ملا
صرف اک جھوٹا تفاخر تھا جو شاہوں سے ملا
لوگ خالی ہاتھ آئے ہیں جہاں سے لوٹ کر
درد کا تحفہ ہمیں ان بارگاہوں سے ملا
ایک مرکز پر ہوئے یکجا کہاں پست و بلند
کب فقیروں کا ستارہ بادشاہوں سے ملا
زندگی بھر ہم رہے محو سفر لیکن ظفرؔ
منزلوں سے کچھ ہوا حاصل نہ راہوں سے ملا