Yasir Khan

یاسر خان

یاسر خان کی غزل

    دنیا اگر جلائے گی تو کیا جلوں گا میں

    دنیا اگر جلائے گی تو کیا جلوں گا میں ہاں تم جلا رہے ہو تو اچھا جلوں گا میں اشکوں کی وہ کمی کہ بدن خشک ہو چکا اس بار جل اٹھوں گا تو سارا جلوں گا میں تم جل نہیں سکے تو ہوائیں ہی روک لو کب تک ان آندھیوں میں اکیلا جلوں گا میں ہوں اشک بار مجھ کو ابھی مت جلائیے ہوگا دھواں زیادہ جو گیلا ...

    مزید پڑھیے

    مجھے وہ غم ہے کہ ساری زمین رونے لگے

    مجھے وہ غم ہے کہ ساری زمین رونے لگے جو اشک پونچھ دوں تو آستین رونے لگے تمہیں پتہ ہے میں ایسی جگہ بھی ہنس آیا جہاں پہ ضبط کے سب ماہرین رونے لگے مداری جانتا تھا آخری تماشا ہے سو کھیل ایسا کیا ناظرین رونے لگے ترے لبوں پہ اداسی تھی ایک لمحے کو تری ہنسی کے سبھی شائقین رونے لگے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    یوں ترے شہر سے ہم یار چلے آتے ہیں

    یوں ترے شہر سے ہم یار چلے آتے ہیں جیسے کعبے سے گنہ گار چلے آتے ہیں عشق میں قیس نے صحراؤں کو چھانا ہوگا ہم وہ مجنوں ہیں جو بازار چلے آتے ہیں رات بھر تم بھی اداسی کا سبب بنتے ہو دن نکلتا ہے تو اخبار چلے آتے ہیں یہ ترے شہر کی رسوائی نہیں تو کیا ہے ہم ترے شہر سے بیمار چلے آتے ہیں وہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے حال جو پوچھا کبھی محبت سے

    کسی نے حال جو پوچھا کبھی محبت سے لپٹ کے رویا بہت دیر اس سے شدت سے ہمارا ساتھ جو چھوٹا تو اس میں حیرت کیا ہمارے ہاتھ تو چھوٹے ہوئے تھے مدت سے یہ اور بات کہ بینائی جا چکی میری تمہارے خواب رکھے ہیں مگر حفاظت سے جب اس نے بھیڑ میں مجھ کو گلے لگایا تھا ہر ایک آنکھ مجھے تک رہی تھی حیرت ...

    مزید پڑھیے

    کون اب جائے ترے پاس شکایت لے کر

    کون اب جائے ترے پاس شکایت لے کر روز آتے ہیں ترے خواب محبت لے کر اس قدر مجھ سے تکلف کی ضرورت کیا ہے میں اگر تجھ کو چھوؤں گا تو اجازت لے کر حسن بے پردہ ہوا اور توقع یہ ہے عشق دیکھے اسے آنکھوں میں شرافت لے کر دفتر عشق کا سرکاری ملازم ہوں میں لوٹ جاؤں گا تری دید کی رشوت لے کر اپنا ...

    مزید پڑھیے

    سب کو ہی اس در پر تالا دکھتا تھا

    سب کو ہی اس در پر تالا دکھتا تھا مجھ کو کوئی دوڑ کے آتا دکھتا تھا کرتے تھے وہ دعائیں اندھے ہونے کی پیاسوں کو زنداں سے دریا دکھتا تھا وہ تھا ایک کنیز کے کمرے کا درپن اس میں دیکھنے والا روتا دکھتا تھا میں نے ان آنکھوں میں دنیا دیکھی تھی اور دنیا کو جانے کیا کیا دکھتا تھا اڑتا ...

    مزید پڑھیے

    مری چیخوں سے کمرہ بھر گیا تھا

    مری چیخوں سے کمرہ بھر گیا تھا کوئی کل رات مجھ میں مر گیا تھا بہت مشکل ہے اس کا لوٹ آنا وہ پوری بات کب سن کر گیا تھا مجھے پہچانتا بھی ہے کوئی اب میں بس یہ دیکھنے ہی گھر گیا تھا زمانہ جس کو دریا کہہ رہا ہے ہماری آنکھ سے بہہ کر گیا تھا کئی صدیوں سے سوکھا پڑ رہا ہے یہاں اک شخص پیاسا ...

    مزید پڑھیے

    بڑے سلیقے سے اب ہم کو جھوٹ بولنا ہے

    بڑے سلیقے سے اب ہم کو جھوٹ بولنا ہے مرے نہ کوئی فقط اتنا زہر گھولنا ہے رکھی ہوئی ہے تری یاد دل کے پلڑے میں اب اس ترازو میں اک عشق اور تولنا ہے میں اس لئے بھی زمانے میں سب کو پیارا ہوں مجھے پتا ہے کہاں کتنا جھوٹ بولنا ہے ہمارے دیش میں انصاف کی جو دیوی ہے اب آستھا سے اسے زندگی کو ...

    مزید پڑھیے

    بنا ہوا تھا کہیں آب دان کاغذ پر

    بنا ہوا تھا کہیں آب دان کاغذ پر تھی اتنی پیاس کہ رکھ دی زبان کاغذ پر کرایے دار کی آنکھوں میں آ گئے آنسو بنائے بیٹھے تھے بچے مکان کاغذ پر تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر تمام عمر گزاری ہے دھوپ میں شاید بنا رہا ہے کوئی سائبان کاغذ پر اٹھا ...

    مزید پڑھیے

    اس کے ہاتھوں میں وہ تاثیر مسیحائی تھی

    اس کے ہاتھوں میں وہ تاثیر مسیحائی تھی سوکھتے پیڑ سے بھی شاخ نکل آئی تھی زندگی بھر وہ اداسی کے لیے کافی ہے ایک تصویر جو ہنستے ہوئے کھنچوائی تھی کل تو مرنے میں سہولت بھی بہت تھی مجھ کو ہجر تھا رات تھی برسات تھی تنہائی تھی مر گیا پیاس سے وہ شخص بھی اب حیرت ہے جس کی دریاؤں سے برسوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2