اس کے ہاتھوں میں وہ تاثیر مسیحائی تھی
اس کے ہاتھوں میں وہ تاثیر مسیحائی تھی
سوکھتے پیڑ سے بھی شاخ نکل آئی تھی
زندگی بھر وہ اداسی کے لیے کافی ہے
ایک تصویر جو ہنستے ہوئے کھنچوائی تھی
کل تو مرنے میں سہولت بھی بہت تھی مجھ کو
ہجر تھا رات تھی برسات تھی تنہائی تھی
مر گیا پیاس سے وہ شخص بھی اب حیرت ہے
جس کی دریاؤں سے برسوں کی شناسائی تھی
دیکھ لینے کی سہولت تو سبھی کو تھی مگر
چند ہی آنکھیں تھیں جن آنکھوں میں بینائی تھی