بڑے سلیقے سے اب ہم کو جھوٹ بولنا ہے
بڑے سلیقے سے اب ہم کو جھوٹ بولنا ہے
مرے نہ کوئی فقط اتنا زہر گھولنا ہے
رکھی ہوئی ہے تری یاد دل کے پلڑے میں
اب اس ترازو میں اک عشق اور تولنا ہے
میں اس لئے بھی زمانے میں سب کو پیارا ہوں
مجھے پتا ہے کہاں کتنا جھوٹ بولنا ہے
ہمارے دیش میں انصاف کی جو دیوی ہے
اب آستھا سے اسے زندگی کو تولنا ہے
ہوا لئے ہوئے پھرتی ہے قینچیاں یاسرؔ
بڑے حساب سے اپنے پروں کو کھولنا ہے