وصی شاہ کی غزل

    دل ہوش سے بیگانہ بیگانے کو کیا کہئے

    دل ہوش سے بیگانہ بیگانے کو کیا کہئے چپ رہنا ہی بہتر ہے دیوانے کو کیا کہئے کچھ بھی تو نہیں دیکھا اور کوچ کی تیاری یوں آنے سے کیا حاصل یوں جانے کو کیا کہئے مجبور ہیں سب اپنی افتاد طبیعت سے ہو شمع سے کیا شکوہ پروانے کو کیا کہئے تجھ سے ہی مراسم ہیں تجھ سے ہی گلا ہوگا بیگانے سے کیا ...

    مزید پڑھیے

    کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے

    کیسا مفتوح سا منظر ہے کئی صدیوں سے میرے قدموں پہ مرا سر ہے کئی صدیوں سے خوف رہتا ہے نہ سیلاب کہیں لے جائے میری پلکوں پہ ترا گھر ہے کئی صدیوں سے اشک آنکھوں میں سلگتے ہوئے سو جاتے ہیں یہ مری آنکھ جو بنجر ہے کئی صدیوں سے کون کہتا ہے ملاقات مری آج کی ہے تو مری روح کے اندر ہے کئی ...

    مزید پڑھیے

    دل میں بکھرے ہوئے جالوں سے پریشان نہ ہو

    دل میں بکھرے ہوئے جالوں سے پریشان نہ ہو میرے گزرے ہوئے سالوں سے پریشان نہ ہو میری آواز کی تلخی کو گوارہ کر لے میرے گستاخ سوالوں سے پریشان نہ ہو میں نے مانا تری آنکھیں نہیں کھلتی ہیں مگر دن نکلنے دے اجالوں سے پریشان نہ ہو اپنی زلفوں میں اترتی ہوئی چاندی کو چھپا میرے بکھرے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    جھک گئی جب یہ انا تیرے در‌‌ سفاک پر

    جھک گئی جب یہ انا تیرے در‌‌ سفاک پر مجھ سے مت پوچھو کہ کیا گزری دل بے باک پر اس زمیں سے آسماں تک میں بکھرتی ہی گئی اب نہ سمٹی تو گروں گی ایک دن میں چاک پر میں رہی اک ہجر میں اور ایک اب ملنے کو ہے جان سے میں یوں گئی تو خاک ڈالو خاک پر اب وہاں پھوٹیں گے پھر سے لالہ و گل دیکھنا ہو رہا ...

    مزید پڑھیے

    اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں

    اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں وہ بچپنا جو اداس راہوں میں کھو گیا تھا میں ڈھونڈتا ہوں اسے تمہاری شرارتوں میں اسے دلاسے تو دے رہا ہوں مگر یہ سچ ہے کہیں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو

    اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کر دو اس کے سائے میں مرے خواب دہک اٹھیں گے میرے چہرے پہ چمکتا ...

    مزید پڑھیے

    کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے

    کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر دل کی دھڑکن سنایا کرتے تھے ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر اپنی پلکوں کا سایہ کرتے تھے کیوں مرے دل میں رکھ نہیں دیتے کس لیے غم اٹھایا کرتے ...

    مزید پڑھیے

    ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی

    ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی ترا ہر بار میرے خط کو پڑھنا اور رو دینا مرا ہر بار لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی کیا تھا ہم نے کیمپس کی ندی پر اک حسیں وعدہ بھلے ہم کو پڑے مرنا محبت مر نہیں سکتی پرانے عہد کو جب زندہ کرنے کا خیال آئے مجھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4