دل میں بکھرے ہوئے جالوں سے پریشان نہ ہو
دل میں بکھرے ہوئے جالوں سے پریشان نہ ہو
میرے گزرے ہوئے سالوں سے پریشان نہ ہو
میری آواز کی تلخی کو گوارہ کر لے
میرے گستاخ سوالوں سے پریشان نہ ہو
میں نے مانا تری آنکھیں نہیں کھلتی ہیں مگر
دن نکلنے دے اجالوں سے پریشان نہ ہو
اپنی زلفوں میں اترتی ہوئی چاندی کو چھپا
میرے بکھرے ہوئے بالوں سے پریشان نہ ہو
اے نئی دوست میں بھرپور ہوا ہوں تیرا
میرے ماضی کے حوالوں سے پریشان نہ ہو
دیکھ یوں دور نہ ہو مجھ کو لگا لے دل سے
تو مری روح کے چھالوں سے پریشان نہ ہو
خود کو ویران نہ کر میرے لیے جان مری
ان پریشان خیالوں سے پریشان نہ ہو