ورن آنند کی غزل

    مرہم کے نہیں ہیں یہ طرف دار نمک کے

    مرہم کے نہیں ہیں یہ طرف دار نمک کے نکلے ہیں مرے زخم طلب گار نمک کے آیا کوئی سیلاب کہانی میں اچانک اور گھل گئے پانی میں وہ کردار نمک کے دونوں ہی کناروں پہ تھی بیماروں کی مجلس اس پار تھے میٹھے کے تو اس پار نمک کے اس نے ہی دیے زخم یہ گردن پہ ہماری پھر اس نے ہی پہنائے ہمیں ہار نمک ...

    مزید پڑھیے

    کہیں نہ ایسا ہو اپنا وقار کھا جائے

    کہیں نہ ایسا ہو اپنا وقار کھا جائے خزاں سے پھول بچائیں بہار کھا جائے ہمارے جیسا کہاں دل کسی کا ہوگا بھلا جو درد پالے رکھے اور قرار کھا جائے پلٹ کے سنگ تری اور پھینک سکتا ہوں کہ میں وہ قیس نہیں ہاں جو مار کھا جائے اسی کا داخلہ اس دشت میں کرو اب سے جو صبر پی سکے اپنا غبار کھا ...

    مزید پڑھیے

    غزل کی چاہتوں اشعار کی جاگیر والے ہیں

    غزل کی چاہتوں اشعار کی جاگیر والے ہیں تمہیں کس نے کہا ہے ہم بری تقدیر والے ہیں وہ جن کو خود سے مطلب ہے سیاسی کام دیکھیں وہ ہمارے ساتھ آئیں جو پرائی پیر والے ہیں وہ جن کے پاؤں تھے آزاد پیچھے رہ گئے ہیں وہ بہت آگے نکل آئیں ہیں جو زنجیر والے ہیں ہیں کھوٹی نیتیں جن کی وہ کچھ بھی پا ...

    مزید پڑھیے

    یوں اپنی پیاس کی خود ہی کہانی لکھ رہے تھے ہم

    یوں اپنی پیاس کی خود ہی کہانی لکھ رہے تھے ہم سلگتی ریت پہ انگلی سے پانی لکھ رہے تھے ہم میاں بس موت ہی سچ ہے وہاں یہ لکھ گیا کوئی جہاں پر زندگانی زندگانی لکھ رہے تھے ہم ملے تجھ سے تو دنیا کو سہانی لکھ دیا ہم نے وگرنہ کب سے اس کو بے معانی لکھ رہے تھے ہم ہمیں پہ گر پڑی کل رات وہ ...

    مزید پڑھیے

    ذہین آپ کے در پر صدائیں دیتے رہے

    ذہین آپ کے در پر صدائیں دیتے رہے جو نا سمجھ تھے وہ در در صدائیں دیتے رہے نہ جانے کون سی آئے صدا پسند اسے سو ہم صدائیں بدل کر صدائیں دیتے رہے پلٹ کے دیکھنا تو اس کا فرض بنتا تھا صدائیں فرض تھیں جن پر صدائیں دیتے رہے میں اپنے جسم سے باہر تلاشتا تھا انہیں وہ میرے جسم کے اندر صدائیں ...

    مزید پڑھیے

    کاش کہ میں بھی ہوتا پتھر

    کاش کہ میں بھی ہوتا پتھر گر تھا ان کو پیارا پتھر لوگو کی تو بات کریں کیا تیرا دل بھی نکلا پتھر ہم دونوں میں بنتی کیسے ایک تھا شیشہ دوجا پتھر شیشہ تو کمزور بڑا تھا پھر بھی کیسے ٹوٹا پتھر سب کے حصے ہیرے موتی میرے حصے آیا پتھر پارس تھا وہ تم نے جانا سب نے جس کو سمجھا پتھر کل تک ...

    مزید پڑھیے

    یہ شوخیاں یہ جوانی کہاں سے لائیں ہم

    یہ شوخیاں یہ جوانی کہاں سے لائیں ہم تمہارے حسن کا ثانی کہاں سے لائیں ہم محبتیں وہ پرانی کہاں سے لائیں ہم رکی ندی میں روانی کہاں سے لائیں ہم ہماری آنکھ ہے پیوست ایک صحرا میں اب ایسی آنکھ میں پانی کہاں سے لائیں ہم ہر ایک لفظ کے معنی تلاشتے ہو تم ہر ایک لفظ کا معنی کہاں سے لائیں ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے خون میں پہلے نہایا جاتا ہے

    خود اپنے خون میں پہلے نہایا جاتا ہے وقار خود نہیں بنتا بنایا جاتا ہے کبھی کبھی جو پرندے بھی ان سنا کر دیں تو حال دل کا شجر کو سنایا جاتا ہے ہماری پیاس کو زنجیر باندھی جاتی ہے تمہارے واسطے دریا بہایا جاتا ہے نوازتا ہے وہ جب بھی عزیزوں کو اپنے تو سب سے بعد میں ہم کو بلایا جاتا ...

    مزید پڑھیے