خود اپنے خون میں پہلے نہایا جاتا ہے
خود اپنے خون میں پہلے نہایا جاتا ہے
وقار خود نہیں بنتا بنایا جاتا ہے
کبھی کبھی جو پرندے بھی ان سنا کر دیں
تو حال دل کا شجر کو سنایا جاتا ہے
ہماری پیاس کو زنجیر باندھی جاتی ہے
تمہارے واسطے دریا بہایا جاتا ہے
نوازتا ہے وہ جب بھی عزیزوں کو اپنے
تو سب سے بعد میں ہم کو بلایا جاتا ہے
ہمیں تلاش کے دیتے ہیں راستہ سب کو
ہمیں کو بعد میں راستہ دکھایا جاتا ہے