Urfi Aafaqi

عرفی آفاقی

عرفی آفاقی کی غزل

    پھر کیا جو پھوٹ پھوٹ کے خلوت میں روئیے

    پھر کیا جو پھوٹ پھوٹ کے خلوت میں روئیے یکسر جہان ہی کو نہ جب تک ڈبوئیے دیوانہ وار ناچیے ہنسئے گلوں کے ساتھ کانٹے اگر ملیں تو جگر میں چبھوئیے آنسو جہاں بھی جس کی بھی آنکھوں میں دیکھیے موتی سمجھ کے رشتۂ جاں میں پروئیے ہر صبح اک جزیرۂ نو کی تلاش میں ساحل سے دور شورش طوفاں کے ...

    مزید پڑھیے

    رہ جاتی ہے ہر چیز جہاں سائے میں ڈھل کر

    رہ جاتی ہے ہر چیز جہاں سائے میں ڈھل کر وہ دیس بھی اک بار ذرا دیکھیے چل کر ہم قافلۂ فکر بڑھا لے گئے آگے آئی جو صدا دشت زیاں میں کہ عمل کر افتادۂ رہ کی نہیں سنتا کوئی فریاد آتا ہے جو بڑھ جاتا ہے پیروں سے کچل کر ہر روزن دیوار سے ہیں گھورتی آنکھیں اس خوف کے زنداں سے کہاں جائیں نکل ...

    مزید پڑھیے

    ہے دل میں ایک بات جسے در بہ در کہیں

    ہے دل میں ایک بات جسے در بہ در کہیں ہر چند اس میں جان بھی جائے مگر کہیں مشاط گان کاکل شمع خیال سب کس کو حریف جلوۂ برق نظر کہیں پرچھائیاں بھی چھوڑ گئیں بے کسی میں ساتھ اب اے شب حیات کسے ہم سفر کہیں پھیلے غبار رنگ دروں تو سواد شام پھوٹے لہو تو موج خرام سحر کہیں جز حرف شوق کس کو ...

    مزید پڑھیے

    بستہ لب تھا وہ مگر سارے بدن سے بولتا تھا

    بستہ لب تھا وہ مگر سارے بدن سے بولتا تھا بھید گہرے پانیوں کے چپکے چپکے کھولتا تھا تھا عجب کچھ سحر ساماں یہ بھی اچرج ہم نے دیکھا چھانتا تھا خاک صحرا اور موتی رولتا تھا رچ رہا تھا دھیرے دھیرے مجھ میں نشہ تیرگی کا کون تھا جو میرے پیمانے میں راتیں گھولتا تھا ڈر کے مارے لوگ تھے ...

    مزید پڑھیے

    رواں دواں سوئے منزل ہے قافلہ کہ جو تھا

    رواں دواں سوئے منزل ہے قافلہ کہ جو تھا وہی ہنوز ہے یک دشت فاصلہ کہ جو تھا نشاط گوش سہی جل ترنگ کی آواز نفس نفس ہے اک آشوب کربلا کہ جو تھا گیا بھی قافلہ اور تجھ کو ہے وہی اب تک خیال زاد سفر فکر راحلہ کہ جو تھا وہ آئے جاتا ہے کب سے پر آ نہیں جاتا وہی صدائے قدم کا ہے سلسلہ کہ جو تھا

    مزید پڑھیے

    صبا سے آتی ہے کچھ بوئے آشنا مجھ کو

    صبا سے آتی ہے کچھ بوئے آشنا مجھ کو بلا رہا ہے مرے خوں کا ذائقہ مجھ کو ہنوز صفحۂ ہستی پہ ہوں میں حرف غلط کوئی ہنوز ہے لکھ لکھ کے کاٹتا مجھ کو ہزار چہرہ طلسم گریز پا ہوں میں اسیر کر نہ سکا کوئی آئنا مجھ کو چلا ہی جاؤں میں پرچھائیوں کے دیس کو اور پکارتا رہے کرنوں کا قافلہ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    جینے کے ڈھب جب آئے تو مرنا پڑا مجھے

    جینے کے ڈھب جب آئے تو مرنا پڑا مجھے کس غم سے رم کیا کہ ٹھہرنا پڑا مجھے میں اور اپنی جان کا دشمن نہیں نہیں ایسی ہی وہ ادا تھی جو مرنا پڑا مجھے کچھ خود مجھے ابھار گئی رفعت جمال کچھ آپ پستیوں سے ابھرنا پڑا مجھے حالانکہ اپنے آپ سے میں دور بھی نہ تھا کتنے ہی راستوں سے گزرنا پڑا ...

    مزید پڑھیے

    کہتے ہو کچھ کہوں تو غلط سربسر غلط

    کہتے ہو کچھ کہوں تو غلط سربسر غلط کیوں کر بنے کہو جو ہر اک بات پر غلط تو کون پھر درست ہے بارے تمہیں کہو اچھا غلط ہے بات ہماری اگر غلط انصاف شرط ہے مگر انصاف ہے کہاں جو بھی ہمیں ملا سو ملا داد گر غلط دیکھو تو منہ وہ آئے ہے تس پر ہمارے منہ اکثر کلام جس کا غلط بیشتر غلط ہوتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا

    وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا بس ایک چھلاوے سا کوئی دم کو ملے گا انجانی زمینوں سے مجھے دے گا صدا وہ نیرنگ نوا شوق کی سرگم کو ملے گا میں اجنبی ہو جاؤں گا خود اپنی نظر میں جس دم وہ مرے دیدۂ پر نم کو ملے گا جو نقش کہ ارژنگ زمانہ میں نہیں ہے اس دل کے دھڑکتے ہوئے البم کو ملے ...

    مزید پڑھیے

    ہے بھی کچھ یا کہ سمک تا بہ‌‌ سما کچھ بھی نہیں

    ہے بھی کچھ یا کہ سمک تا بہ‌‌ سما کچھ بھی نہیں پوچھا جب جب تو یہی آئی صدا کچھ بھی نہیں زندگی لائی ہے اس دشت میں مجھ کو کہ جہاں راہرو راہ گزر راہنما کچھ بھی نہیں جانے کیوں آپ ادھر اپنے قدم جاتے ہیں کہ جدھر گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں اک قیامت ہے مرے جرم سے تیرا اغماض آہ یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2