بستہ لب تھا وہ مگر سارے بدن سے بولتا تھا

بستہ لب تھا وہ مگر سارے بدن سے بولتا تھا
بھید گہرے پانیوں کے چپکے چپکے کھولتا تھا


تھا عجب کچھ سحر ساماں یہ بھی اچرج ہم نے دیکھا
چھانتا تھا خاک صحرا اور موتی رولتا تھا


رچ رہا تھا دھیرے دھیرے مجھ میں نشہ تیرگی کا
کون تھا جو میرے پیمانے میں راتیں گھولتا تھا


ڈر کے مارے لوگ تھے دبکے ہوئے اپنے گھروں میں
ایک بادل سا دھوئیں کا بستی بستی ڈولتا تھا


کانپ کانپ اٹھتا تھا میرا میں ہی خود میرے مقابل
میں نہیں تو پھر وہ کس پر کون خنجر تولتا تھا