ہے بھی کچھ یا کہ سمک تا بہ‌‌ سما کچھ بھی نہیں

ہے بھی کچھ یا کہ سمک تا بہ‌‌ سما کچھ بھی نہیں
پوچھا جب جب تو یہی آئی صدا کچھ بھی نہیں


زندگی لائی ہے اس دشت میں مجھ کو کہ جہاں
راہرو راہ گزر راہنما کچھ بھی نہیں


جانے کیوں آپ ادھر اپنے قدم جاتے ہیں
کہ جدھر گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں


اک قیامت ہے مرے جرم سے تیرا اغماض
آہ یہ کیسی سزا ہے کہ سزا کچھ بھی نہیں


دیکھیے تو سہی کس وقت زباں ہم کو ملی
جب کہ کہنے کے لیے دل میں رہا کچھ بھی نہیں