ہے دل میں ایک بات جسے در بہ در کہیں

ہے دل میں ایک بات جسے در بہ در کہیں
ہر چند اس میں جان بھی جائے مگر کہیں


مشاط گان کاکل شمع خیال سب
کس کو حریف جلوۂ برق نظر کہیں


پرچھائیاں بھی چھوڑ گئیں بے کسی میں ساتھ
اب اے شب حیات کسے ہم سفر کہیں


پھیلے غبار رنگ دروں تو سواد شام
پھوٹے لہو تو موج خرام سحر کہیں


جز حرف شوق کس کو کہیں گلشن سما
جز نقش ناز کس کو نشید نظر کہیں


ٹوکو انہیں نہ لغزش گفتار دیکھ کر
یہ لوگ وہ ہیں جن کو خدائے ہنر کہیں


عرفیؔ گدائے شہر کی صورت اگر ملے
اقلیم شاعری کا اسے تاجور کہیں