رہ جاتی ہے ہر چیز جہاں سائے میں ڈھل کر

رہ جاتی ہے ہر چیز جہاں سائے میں ڈھل کر
وہ دیس بھی اک بار ذرا دیکھیے چل کر


ہم قافلۂ فکر بڑھا لے گئے آگے
آئی جو صدا دشت زیاں میں کہ عمل کر


افتادۂ رہ کی نہیں سنتا کوئی فریاد
آتا ہے جو بڑھ جاتا ہے پیروں سے کچل کر


ہر روزن دیوار سے ہیں گھورتی آنکھیں
اس خوف کے زنداں سے کہاں جائیں نکل کر


سیراب تو ہوتی ہیں کسی عکس سے آنکھیں
آتی ہے کوئی موج تہوں سے تو اچھل کر


صد حیف کہ ضائع دل انساں پہ ہو وہ آگ
جس آگ سے کہسار بھی رہ جائیں پگھل کر