دن کے ہارے ہوئے جب شام کو گھر جاتے ہیں

دن کے ہارے ہوئے جب شام کو گھر جاتے ہیں
زندگی ہم تری آغوش میں مر جاتے ہیں


کوئی تو بات ہے جو اب بھی تری جانب ہم
دل اجازت نہیں دیتا ہے مگر جاتے ہیں


آج بھی کچے گھڑوں پر ہی بھروسہ کر کے
عشق والے چڑھے دریا میں اتر جاتے ہیں


ہم غریبوں کے طرف دار بہت ہیں لیکن
بات انصاف کی آئے تو مکر جاتے ہیں


کون پھر سچ کی حمایت میں گواہی دے گا
ہم بھی قاتل کی حمایت میں اگر جاتے ہیں


آنکھ سورج سے ملانے کا جنہیں دعویٰ ہے
ایک جگنو بھی چمک جائے تو ڈر جاتے ہیں


اس اداکار زمانے کو سخنور تشنہؔ
یاد آتے ہیں کہ جس وقت گزر جاتے ہیں