مسلسل تیرنے والا بھی اکثر ہار جاتا ہے
مسلسل تیرنے والا بھی اکثر ہار جاتا ہے
سمندر سے جو بچ نکلے تو دریا مار جاتا ہے
شرافت کا مری چرچا سر بازار کیا پہنچا
جسے دیکھو وہی آ کر مجھے للکار جاتا ہے
سر مقتل میں جاں بخشی کی اس سے التجا کر کے
اگر سر کو بچا لوں تو مرا کردار جاتا ہے
ہمیں چھو کر جو بن جاتا ہے مٹی سے کھرا سونا
وہی اک روز ہم پارس کو ٹھوکر مار جاتا ہے
ہمیں تلقین کرتا ہے جو ہر لمحہ وہ سجدے میں
خدا جانے کہ سچے دل سے کتنی بار جاتا ہے
میں جب بھی گھر سے نکلوں ہر طرف اک شور اٹھتا ہے
میاں دوڑو وہ دیکھو عشق کا بیمار جاتا ہے
جہاں پر فرض کو احسان سمجھا جائے ہے تشنہؔ
تو اپنا حق طلب کرنے وہاں بے کار جاتا ہے