وہ کبھی بستر کبھی چادر بچھاتے رہ گئے

وہ کبھی بستر کبھی چادر بچھاتے رہ گئے
نیند کی آغوش میں ہم جاتے جاتے رہ گئے


ہم نے کالی رات میں سارا سفر طے کر لیا
جن کے ذمے روشنی تھی چاند لاتے رہ گئے


رات آئی چاند نکلا سارے پنچھی سو گئے
چاندنی میں ہم مگر دل کو جلاتے رہ گئے


چاند نے قیمت وصولی چاندنی کی بارہا
ہم ستارے آسماں پر جھلملاتے رہے گئے


اور ہم کرتے بھی کیا اس دل شکن کے سامنے
صبر کی مورت بنے بس مسکراتے رہ گئے


کوئی تو اہل وفا ہوگا اسی امید پر
عمر بھر ہر ایک سے دھوکا ہی کھاتے رہ گئے


اے امیر شہر تیری آبرو کی فکر میں
چند قصے میرے لب پر آتے آتے رہ گئے


اب خیال آیا ہمیں تشنہؔ کہ اک مدت سے ہم
داستان غم انہیں نا حق سناتے رہ گئے