تاشی ظہیر کی غزل

    اسی لئے تو تکلم کا سلسلہ نہیں تھا

    اسی لئے تو تکلم کا سلسلہ نہیں تھا وہ میرا بن تو گیا تھا مرا ہوا نہیں تھا تمام عمر شریک سفر رہا وہی شخص قدم ملا کے کبھی ساتھ جو چلا نہیں تھا میں دوسروں کی ہنسی تو بہت اڑاتا تھا خود اپنے آپ پہ لیکن کبھی ہنسا نہیں تھا میں کیسے کہہ دوں کہ وہ شخص مر گیا ہے آج وہ شخص سانس تو لیتا تھا پر ...

    مزید پڑھیے

    کہاں رہی ہے محبت کی آس شہروں میں

    کہاں رہی ہے محبت کی آس شہروں میں بدل لئے ہیں سبھی نے لباس شہروں میں سگان تشنہ ہر اک رہ گزر پہ بیٹھے ہیں رہا نہیں ہے اب انساں کا پاس شہروں میں مسیحی خوں ہو کہ شیعہ ہو احمدی سنی لہو کی بڑھتی ہی جاتی ہے پیاس شہروں میں لہو کے آخری قطرے بھی بے جزا ٹھہرے کہاں سے آئیں گے اب حق شناس ...

    مزید پڑھیے

    اس جہاں میں بھی کہیں اپنا سہارا کوئی ہے

    اس جہاں میں بھی کہیں اپنا سہارا کوئی ہے آسمانوں میں بھی لگتا ہے ہمارا کوئی ہے یوں تو کہنے کو سبھی سے ہیں مراسم اپنے مان لیں کیسے کہ ان سب میں ہمارا کوئی ہے شوق سے جان پہ سہہ لیں جو ہمیں ہو معلوم فیصلہ ہے یہ اب اس کا کہ اشارا کوئی ہے کاٹ لیتا ہے شب و روز تو وہ بھی آخر جس کی منزل ہے ...

    مزید پڑھیے

    جدا بھی مجھ سے ہوا وہ تو پیار میرا رہا

    جدا بھی مجھ سے ہوا وہ تو پیار میرا رہا بس اس پہ ایک یہی اختیار میرا رہا جو دشمنوں سے ملا تھا تو کیا غرض مجھ کو تمام عمر تو وہ شخص یار میرا رہا وفا پرست جو دو چار ہیں زمانے میں مرا نصیب کہ ان میں شمار میرا رہا گرا جو کٹ کے بدن سے تو جھک گئے سب لوگ بغیر تاج کے سر تاجدار میرا رہا گزر ...

    مزید پڑھیے

    اسے تو خواب کسی اور کے سہانے لگے

    اسے تو خواب کسی اور کے سہانے لگے ہمارے دل سے نکلتے جسے زمانے لگے ہمارے دل میں نئے خوف سر اٹھانے لگے پرندے جب بھی کہیں گھونسلے بنانے لگے جنہیں پناہ دی ہم نے وہی بچا کے نظر ہمارے گھر میں نئے راستے بنانے لگے ہماری کم نگہی پہ وہ خود بھی حیراں تھا ہم اپنا جان کے جس کو گلے لگانے ...

    مزید پڑھیے

    گھر کبھی تھا وہ ہمارا بھی جدھر کے ہم ہیں

    گھر کبھی تھا وہ ہمارا بھی جدھر کے ہم ہیں کیا بتائیں تمہیں کس چاند نگر کے ہم ہیں حد فاصل نہیں کھنچتی ہے دلوں کے مابین جس میں یادیں ہیں ہماری اسی گھر کے ہم ہیں ماں کی آغوش کی مانند ہوں شاخیں جس کی وہ کسی دیس کا ہو ایسے شجر کے ہم ہیں پیار سے بڑھ کے بھلا اور کوئی کیا دے گا یہ جہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی کہہ لی ہے تو اب میری کہانی بھی تو سن

    اپنی کہہ لی ہے تو اب میری کہانی بھی تو سن تو نے اوروں سے سنی میری زبانی بھی تو سن نت نئے رنگ بدلتے ہوئے لمحوں سے نکل زندگی کیا ہے یہ موسم کی زبانی بھی تو سن لفظ تو جان لئے ان کے معانی بھی سمجھ وہ جو کہتے تھے بڑے بات پرانی بھی تو سن شب تاریک میں تو گھر سے نکل کر کبھی دیکھ تجھ سے کیا ...

    مزید پڑھیے

    حق پرستی کے سزاوار ہوا کرتے تھے

    حق پرستی کے سزاوار ہوا کرتے تھے ہم کبھی صاحب کردار ہوا کرتے تھے کوئی مذہب ہو کوئی رنگ ہو مل بیٹھتے تھے دیس میں ایسے بھی تہوار ہوا کرتے تھے پاس تہذیب تھا اک وہ بھی زمانہ تھا کبھی میرے دشمن بھی مرے یار ہوا کرتے تھے اس طرح تھک کے تو بیٹھا نہیں کرتے تھے ہم راستے پہلے بھی دشوار ہوا ...

    مزید پڑھیے