اسی لئے تو تکلم کا سلسلہ نہیں تھا
اسی لئے تو تکلم کا سلسلہ نہیں تھا
وہ میرا بن تو گیا تھا مرا ہوا نہیں تھا
تمام عمر شریک سفر رہا وہی شخص
قدم ملا کے کبھی ساتھ جو چلا نہیں تھا
میں دوسروں کی ہنسی تو بہت اڑاتا تھا
خود اپنے آپ پہ لیکن کبھی ہنسا نہیں تھا
میں کیسے کہہ دوں کہ وہ شخص مر گیا ہے آج
وہ شخص سانس تو لیتا تھا پر جیا نہیں تھا
کسی کی بات کروں اس کا ذکر چھڑ جائے
وہ دور رہ کے بھی مجھ سے کبھی جدا نہیں تھا
مرے خدا تجھے الزام دے نہیں سکتا
کہ سچ تو یہ ہے مرا تجھ پہ آسرا نہیں تھا