جدا بھی مجھ سے ہوا وہ تو پیار میرا رہا

جدا بھی مجھ سے ہوا وہ تو پیار میرا رہا
بس اس پہ ایک یہی اختیار میرا رہا


جو دشمنوں سے ملا تھا تو کیا غرض مجھ کو
تمام عمر تو وہ شخص یار میرا رہا


وفا پرست جو دو چار ہیں زمانے میں
مرا نصیب کہ ان میں شمار میرا رہا


گرا جو کٹ کے بدن سے تو جھک گئے سب لوگ
بغیر تاج کے سر تاجدار میرا رہا


گزر گئی ہے تو اب کیا گلہ کروں تجھ سے
مگر اے زندگی تجھ پہ ادھار میرا رہا