طارق قمر کی غزل

    چشم بینا! ترے بازار کا معیار ہیں ہم

    چشم بینا! ترے بازار کا معیار ہیں ہم دیکھ ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خریدار ہیں ہم کیسے تاریخ فراموش کرے گی ہم کو تیغ پر خون سے لکھا ہوا انکار ہیں ہم تم جو کہتے ہو کہ باقی نہ رہے اہل دل زخم بیچو گے چلو بیچو خریدار ہیں ہم یوں ہی لہروں سے کبھی کھیلنے لگ جاتے ہیں ایک غرقاب ہوئی ناؤ کی ...

    مزید پڑھیے

    نظر نظر سے ملا کر کلام کر آیا

    نظر نظر سے ملا کر کلام کر آیا غلام شاہ کی نیندیں حرام کر آیا کئی چراغ ہوا کے اثر میں آئے تھے میں ایک جگنو کو ان کا امام کر آیا یہ کس کی پیاس کے چھینٹے پڑے ہیں پانی پر یہ کون جبر کا قصہ تمام کر آیا اترتی شام کے سائے بہت ملول سے تھے سو ایک شب میں وہاں بھی قیام کر آیا یہ اور بات مرے ...

    مزید پڑھیے

    یہ آرزو تھی اسے آئنہ بناتے ہم

    یہ آرزو تھی اسے آئنہ بناتے ہم اور آئینے کی حفاظت میں ٹوٹ جاتے ہم تمام عمر بھٹکتے رہے یہ کہتے ہوئے کہ گھر بناتے سجاتے اسے بلاتے ہم ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم بگاڑے بیٹھے تھے تقدیر اپنے ہاتھوں سے ہتھیلیوں کی لکیریں کسے دکھاتے ہم خدا نے ...

    مزید پڑھیے

    بس ذرا دیر سے احساس ہوا تھا مجھ کو

    بس ذرا دیر سے احساس ہوا تھا مجھ کو وہ بھی میری ہی طرح سوچ رہا تھا مجھ کو یہ ہی اک شخص بھٹکتا ہے جو صحرا صحرا ایک دن شہر تمنا میں ملا تھا مجھ کو میں تو موجود تھا ہر دم ترے افسانے میں میرے راوی نے مگر مار دیا تھا مجھ کو میں نے جب اس کو بتایا تو ذرا ابر چھٹا اس نے اوروں کی زبانی ہی ...

    مزید پڑھیے

    آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں

    آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں تشنہ لب خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں دشت احساس تری پیاس سے میں ہار گیا ورنہ سیلاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں جانتے ہیں کہ مجھے نیند نہیں آتی ہے پھر بھی کچھ خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں یہ بتاتے ہیں کہاں بیٹھنا اٹھنا ہے کہاں میرے آداب مرے ساتھ سفر کرتے ...

    مزید پڑھیے

    پاؤں جب ہو گئے پتھر تو صدا دی اس نے

    پاؤں جب ہو گئے پتھر تو صدا دی اس نے فیصلہ کرنے میں خود دیر لگا دی اس نے اب جو آنکھوں میں دھواں ہے تو شکایت کیسی یار خود ہی تو چراغوں کو ہوا دی اس نے یہ الگ بات کہ وہ میرا خریدار نہیں آ کے بازار کی رونق تو بڑھا دی اس نے کوئی شکوہ نہ شکایت نہ وضاحت کوئی میز سے بس مری تصویر ہٹا دی اس ...

    مزید پڑھیے

    رعایا ظلم پہ جب سر اٹھانے لگتی ہے

    رعایا ظلم پہ جب سر اٹھانے لگتی ہے تو اقتدار کی لو تھرتھرانے لگتی ہے ہمیشہ ہوتا ہوں کوشش میں بھول جانے کی وہ یاد اور بھی شدت سے آنے لگتی ہے حقیر کرتی ہے یوں بھی کبھی کبھی دنیا مرے ضمیر کی قیمت لگانے لگتی ہے یہ روشنائی جو پھیلی ہے تیرے اشکوں سے یہ سسکیوں کی صدائیں سنانے لگتی ...

    مزید پڑھیے

    کیسے رشتوں کو سمیٹیں یہ بکھرتے ہوئے لوگ

    کیسے رشتوں کو سمیٹیں یہ بکھرتے ہوئے لوگ ٹوٹ جاتے ہیں یہی فیصلہ کرتے ہوئے لوگ غور سے دیکھو ہمیں، دیکھ کے عبرت ہوگی ایسے ہوتے ہیں بلندی سے اترتے ہوئے لوگ اے خدا معرکۂ لشکر شب باقی ہے اور مرے ساتھ ہیں پرچھائیں سے ڈرتے ہوئے لوگ مر کے دیکھیں گے کبھی ہم بھی، سنا ہے ہم نے مسکراتے ...

    مزید پڑھیے

    سرد پڑ جائے خون پانی نہ ہو

    سرد پڑ جائے خون پانی نہ ہو میری تہذیب زعفرانی نہ ہو انگلیاں آپ کی لہو میرا کیسے تحریر جاودانی نہ ہو ختم کرنا ہو اک تعلق بھی اور دیوار بھی اٹھانی نہ ہو کہہ رہی ہیں وہ خوش سخن آنکھیں اب کوئی بات بھی زبانی نہ ہو جس طرح تم نے اختتام کیا ختم ایسے کوئی کہانی نہ ہو نفرتوں کا علاج ...

    مزید پڑھیے

    ذہن و خیال سے کوئی چہرہ نہ جا سکا

    ذہن و خیال سے کوئی چہرہ نہ جا سکا اور اس کے آگے ہم سے بھی سوچا نہ جا سکا اک جان تھی جو نذر گزاری نہ جا سکی اک قرض تھا جو ہم سے اتارا نہ جا سکا ہم نے ہزار جشن سحر کے منا لیے اور بام و در سے رات کا سایہ نہ جا سکا کتنے تباہ ہوں گے ہم اک شخص کے لیے خود سے کبھی سوال یہ پوچھا نہ جا سکا کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3