ذہن و خیال سے کوئی چہرہ نہ جا سکا
ذہن و خیال سے کوئی چہرہ نہ جا سکا
اور اس کے آگے ہم سے بھی سوچا نہ جا سکا
اک جان تھی جو نذر گزاری نہ جا سکی
اک قرض تھا جو ہم سے اتارا نہ جا سکا
ہم نے ہزار جشن سحر کے منا لیے
اور بام و در سے رات کا سایہ نہ جا سکا
کتنے تباہ ہوں گے ہم اک شخص کے لیے
خود سے کبھی سوال یہ پوچھا نہ جا سکا
کچھ پل کو ہو گیا تھا میں بھڑکا ہوا چراغ
کچھ دیر آندھیوں سے بھی سنبھلا نہ جا سکا
بس اک لرزتا ہاتھ مرے ہونٹ سی گیا
اور پھر تمام زندگی بولا نہ جا سکا
ہم اس کو ساری عمر اٹھائے پھرا کیے
جو بار میرؔ سے بھی اٹھایا نہ جا سکا
طارقؔ یہ دل بھی ہے خط تقدیر کی طرح
ہم خود بدل گئے اسے بدلا نہ جا سکا