بس ذرا دیر سے احساس ہوا تھا مجھ کو

بس ذرا دیر سے احساس ہوا تھا مجھ کو
وہ بھی میری ہی طرح سوچ رہا تھا مجھ کو


یہ ہی اک شخص بھٹکتا ہے جو صحرا صحرا
ایک دن شہر تمنا میں ملا تھا مجھ کو


میں تو موجود تھا ہر دم ترے افسانے میں
میرے راوی نے مگر مار دیا تھا مجھ کو


میں نے جب اس کو بتایا تو ذرا ابر چھٹا
اس نے اوروں کی زبانی ہی سنا تھا مجھ کو


اور پھر کہہ ہی دیا میں نے بھی اک دن آمین
وہ دعاؤں میں بہت مانگ رہا تھا مجھ کو


ہو نہ ہو وہ پس دیوار ابھی ہے موجود
روشنی کا ابھی احساس ہوا تھا مجھ کو


یہ نہ سوچا تھا کہ اس رنج پہ ہونا ہے تمام
ختم ہونا ہے تعلق یہ پتا تھا مجھ کو


یہ جو پتھرائی سی آنکھیں ہیں اسی شخص کی ہیں
جس نے رستے میں کبھی چھوڑ دیا تھا مجھ کو


اختیار اس کا ہواؤں پہ نہیں تھا طارقؔ
اس نے دہلیز پہ روشن تو کیا تھا مجھ کو