سارے زخموں کو زباں مل گئی غم بولتے ہیں
سارے زخموں کو زباں مل گئی غم بولتے ہیں ہم مگر ظرف سے مجبور ہیں کم بولتے ہیں کس قدر توڑ دیا ہے اسے خاموشی نے کوئی بولے وہ سمجھتا ہے کہ ہم بولتے ہیں کیا عجب لوگ تھے گزرے ہیں بڑی شان کے ساتھ راستے چپ ہیں مگر نقش قدم بولتے ہیں وقت وہ ہے کہ خدا خیر، بہ نام ایماں دیر والوں کی زباں اہل ...