طارق قمر کی غزل

    سارے زخموں کو زباں مل گئی غم بولتے ہیں

    سارے زخموں کو زباں مل گئی غم بولتے ہیں ہم مگر ظرف سے مجبور ہیں کم بولتے ہیں کس قدر توڑ دیا ہے اسے خاموشی نے کوئی بولے وہ سمجھتا ہے کہ ہم بولتے ہیں کیا عجب لوگ تھے گزرے ہیں بڑی شان کے ساتھ راستے چپ ہیں مگر نقش قدم بولتے ہیں وقت وہ ہے کہ خدا خیر، بہ نام ایماں دیر والوں کی زباں اہل ...

    مزید پڑھیے

    آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں

    آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں تشنہ لب خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں دشت احساس تری پیاس سے میں ہار گیا ورنہ سیلاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں جانتے ہیں کہ مجھے نیند نہیں آتی ہے پھر بھی کچھ خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں یہ بتاتے ہیں کہاں بیٹھنا اٹھنا ہے کہاں میرے آداب مرے ساتھ سفر کرتے ...

    مزید پڑھیے

    بڑی حویلی کے تقسیم جب اجالے ہوئے

    بڑی حویلی کے تقسیم جب اجالے ہوئے جو بے چراغ تھے وہ بھی چراغ والے ہوئے نہ آئنوں کو خبر تھی نہ دست وحشت کو کہاں گریں گے یہ پتھر جو ہیں اچھالے ہوئے جو تخت و تاج پہ تنقید کرتے پھرتے ہیں یہ سارے لوگ ہیں دربار سے نکالے ہوئے پھر آج بھوک ہمارا شکار کر لے گی کہ رات ہو گئی دریا میں جال ...

    مزید پڑھیے

    کون سا میں جواز دوں صورت حال کے لئے

    کون سا میں جواز دوں صورت حال کے لئے دست سخی میں کچھ نہیں دست سوال کے لئے اپنی تباہیوں پہ بھی کھل کے نہ رو سکے کبھی وقت ہی کب ملا ہمیں رنج و ملال کے لئے اس سے میں اس طرح ملا جیسے مجھے پتہ نہیں کرتا ہے کون سازشیں میرے زوال کے لئے تم بھی کھنچے کھنچے سے تھے ہم بھی بچے بچے رہے دونوں ہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرے خواب کی تعبیر تو بتائے مجھے

    وہ میرے خواب کی تعبیر تو بتائے مجھے میں دھوپ میں ہوں مگر ڈھونڈتے ہیں سائے مجھے میں روشنی کی کسی سلطنت کا شہزادہ مگر چراغ ملے ہیں بجھے بجھائے مجھے وہ جا چکا ہے تو نقش قدم بھی مٹ جائیں بچھڑ گیا ہے تو اب یاد بھی نہ آئے مجھے کسی جواز کا ہونا ہی کیا ضروری ہے اگر وہ چھوڑنا چاہے تو ...

    مزید پڑھیے

    آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں

    آب در آب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں تشنہ لب خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں اک سیہ رات تعاقب میں لگی رہتی ہے نجم و مہتاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں دشت احساس تری پیاس سے میں ہار گیا ورنہ سیلاب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں جانتے ہیں کہ مجھے نیند نہیں آتی ہے پھر بھی کچھ خواب مرے ساتھ سفر کرتے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ روز و شب کی مسافت یہ آنا جانا مرا

    یہ روز و شب کی مسافت یہ آنا جانا مرا بہت سے شہروں میں بکھرا ہے آب و دانہ مرا نہیں پسند مرے تنگ ذہن قاتل کو یہ حرف شکر یہ خنجر پہ مسکرانا مرا عجیب رد عمل تھا وہ روشنی کے خلاف جلا جلا کے چراغوں کو خود بجھانا مرا یہ چند لوگ مرے آس پاس بیٹھے ہوئے یہی کمائی ہے میری یہی خزانہ مرا کہاں ...

    مزید پڑھیے

    اس نے اک بار بھی پوچھا نہیں کیسا ہوں میں

    اس نے اک بار بھی پوچھا نہیں کیسا ہوں میں خود کو بھی جس کے لئے ہار کے بیٹھا ہوں میں پھول ہونے کی سزا خوب ملی ہے مجھ کو شاخ سے ٹوٹ کے گلدان میں رکھا ہوں میں چلتا رہتا ہوں تو لگتا ہے کوئی ساتھ میں ہے تھک کے بیٹھوں گا تو یاد آئے گا تنہا ہوں میں گم ہوا خود میں تو اک نقطۂ موہوم ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیں کتنے چاہنے والے نکلیں گے

    دیکھیں کتنے چاہنے والے نکلیں گے اب کے ہم بھی بھیس بدل کے نکلیں گے چاہے جتنا شہد پلا دو شاخوں کو نیم کے پتے پھر بھی کڑوے نکلیں گے پیر کے چھالے پوچھ رہے ہیں رہبر سے اک رستے سے کتنے رستے نکلیں گے اس لہجے سے بات نہیں بن پائے گی تلواروں سے کیسے کانٹے نکلیں گے تخت چھنے گا دربانوں کی ...

    مزید پڑھیے

    نہ تم ملے تھے تو دنیا چراغ پا بھی نہ تھی

    نہ تم ملے تھے تو دنیا چراغ پا بھی نہ تھی یہ مہرباں تو نہیں تھی مگر خفا بھی نہ تھی عجب غریبی کے عالم میں مر گیا اک شخص کہ سر پہ تاج تھا دامن میں اک دعا بھی نہ تھی نہ اتنا بکھری تھی پہلے کتاب ہستی بھی اور اتنی تیز مرے شہر کی ہوا بھی نہ تھی خوشی تو یہ ہے کہ پاس ادب رکھا ہم نے ملال یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3